وزیر خانم نے بے رخی سے نواب ضیاکا خیر مقدم کیا

نواب ضیاء الدین احمد خان کے چہرے پر اب پریشانی جھلک مارنے لگی تھی۔ بھلا میری گفتگو کب تک اور کس طرح ان رسمی، معنی سے تہی جملوں کے رشتوں میں الجھی رہے گی۔ نواب مرزا سے بھلا کتنی دور تک اس بے لطف سلسلے کو طویل کرنا با صواب ہوگا۔ ان کے دل میں وزیر خانم کے خلاف کچھ غصے کی تپش بھی روشن ہونے لگی تھی۔ کہاں کی انسانیت ہے یہ کہ اس طرح مجھے انتظار میں ڈال رکھا ہے۔ نواب مرزا بھی اب کچھ گھبرانے لگا تھا کہ یا تو انہیں رخصت کیجئے یا پھر ان سے پوچھئے کہ اماں جان سے ملنے کی خواہش انہیں کیوں ہے۔ لیکن اس وقت تو یہی کرنا تھا کہ کوئی بات ہے ہی نہیں۔ ضیاء الدین احمد کا اچانک چلا آنا نہ تھا، روز کی برادرانہ بھائی چارے کی ملاقات میں سے ایک ملاقات تھا۔
’’استاد ذوق صاحب کی خدمت میں جلد برائے ملازمت حاضر ہوں گا‘‘۔ نواب مرزا کا جملہ ختم نہ ہونے پایا تھا کہ اوپری منزل سے اترنے والے زینے کا دروازہ کھلا اور وزیر خانم نے دروازے پر سے انتہائی شیریں لیکن خیر مقدمی لہجے سے بالکل عاری آواز میں کہا: ’’آداب بجا لاتی ہوں نواب صاحب۔ زہے نصیب کہ آپ کو یہاں دیکھتی ہوں‘‘۔
ضیاء الدین احمد اور نواب مرزا اضطراری طور پر کھڑے ہوگئے اور ضیاء الدین احمد نے کچھ پھنسی پھنسی آواز میں کہا: ’’نصیب تو ہمارے اعلیٰ ہیں کہ آپ کی زیارت ہو سکی… تشریف لائیں، ادھر قدم رنجہ فرمائیں‘‘۔
وزیر خانم اس وقت سیاہ چادر کے سوا بالکل سفید لباس میں تھی۔ چادر کو اس نے ایرانی طرز میں اس طرح لپیٹ رکھا تھا کہ منہ کا صرف تھوڑا سا حصہ نظر آتا تھا، یعنی تھوڑی سی پیشانی، پیشانی کے اوپر چمکیلے عنبریں بالوں کی ہلکی سی جھلکار، آنکھیں، ناک اور دہانہ، اس طرح کہ اگر نیم رخ دیکھیں تو صرف ناک اور دہانے کے خطوط دکھائی دیتے، اور اگر دو چشمی دیکھیں تو آنکھیں، اور آنکھوں کا محاذ باقی ہر چیز پر حاوی ہو۔ وزیر اندر آکر ضیاء الدین احمد سے کچھ الگ اس انداز سے بیٹھی کہ نہ اس کی پشت نواب کی طرف تھی اور نہ اسے نواب کے روبرو کہہ سکتے تھے۔
نواب مرزا کسی بہانے سے اٹھ آیا۔ جاتے وقت اس نے پردہ برابر کر کے دروازہ ہلکے سے بند کر دیا تھا۔ اب وزیر اور ضیاء الدین احمد اکیلے تھے۔
دروازے پر داخل ہونے سے لے کر اب تک وزیر نے کئی بار کنکھیوں سے نواب ضیاء الدین احمد خان کی طرف دیکھا تھا۔ نواب شمس الدین احمد خاں سے مشابہت جگہ جگہ نمایاں تھی۔ اس وقت چھوٹے بھائی کا سن بھی وہی تھا، جو نواب شمس الدین احمد خان کا اس وقت تھا جب ان کی پہلی ملاقات وزیر سے ہوئی تھی۔ ضیاء الدین احمد خان کو دیکھ دیکھ کر وزیر کے دل میں ہوک سی اٹھتی معلوم ہوتی تھی اور گزشتہ کی یاد اس کی روح میں چنگاری کی طرح چبھنے لگتی تھی۔ اسے ضیاء الدین احمد خان پر یک گونہ پیار بھی آتا اور نفرت کی بھی لہر اس کے دل پر سانپ کی لوٹتی کہ انہیں زندہ رہنے کا کیا حق ہے، جب میرے نواب کی جان چلی گئی اور انہیں لوگوں کی وجہ سے گئی۔ نہ یہ لوگ انگریز سے سازباز کرکے بڑے بھائی کو بے دخل کراتے اور نہ وہ حادثہ فاجعہ پیش آتا۔ اب بھلا یہ کیا کرنے میرے پاس آئے ہیں۔ شاید میرے حال پر ہنسنے اور خوش ہونے آئے ہوں۔ لیکن میں بھی اپنے نام کی وزیر نہیں جو انہیں خوش ہوتے یا بغلیں بجانے کا موقع دوں۔
’’مجھے آپ کو دیکھنے کا اشتیاق بہت تھا‘‘۔ ضیاء الدین احمد خان کے الفاظ نے وزیر کے خیالات کی رو منتشر کر دی۔ ’’دیکھئے‘‘ کے لفظ کی معنویت وزیر پر خوب واضح تھی، لیکن وہ اپنی طرف سے کوئی موقع نہیں دینا چاہتی تھی۔
’’تقدیر اور ملک الموت نے ہمیں علیحدہ کر دیا، ورنہ ملنا اور مل جانا غیر ممکن نہ تھا‘‘۔ وزیر نے کچھ خشک لہجے میں جواب دیا۔
ضیاء الدین احمد خان نے اس جملے میں پوشیدہ تعریض کو محسوس کیا، لیکن اس وقت ان کے لئے بھی بحث کا موقع نہ تھا۔ انہوں نے درد بھرے لہجے میں کہا: ’’جی ہاں، ہم انسان اپنے خیال میں بہت سرکش اور گردن افراز ہیں، لیکن کن فیکون کے نقشے پر ایک خشک پر کاہ سے زیادہ نہیں‘‘۔ پھر ایک لحظہ خاموش رہ کر انہوں نے صائب کا شعر پڑھا اور اس طرح گویا وزیرخانم کو جواب دیا
ہر کہ آمد در غم آباد یہاں چوں گرد باد
روزگارے خاک خورد آخر بہ ہم پیچید و رفت
’’جی ہاں‘‘۔ وزیر کے لہجے میں تھوڑی سی تلخی تھی۔ ’’لیکن ہمیں غم آباد جہاں میں لایا کون تھا؟‘‘۔
ضیاء الدین احمد خان ایک لمحے کے لئے لاجواب سے ہوگئے۔ انہوں نے آہستہ سے کھنکھار کر گلا صاف کیا اور خفیف سی مسکراہٹ مسکرا کر بولے۔ ’’یہ سوال تو عمر خیام سے پوچھنے کا تھا۔ لیکن سچ یہ ہے وزیر خانم کہ جنہیں کچھ ملتا ہے وہ مزید کے خواہاں رہتے ہیں اور جنہیں نہیں ملتا وہ پانے کے متمنی رہتے ہیں‘‘۔
اپنے خیال میں ضیاء الدین احمد خان نے وزیر کی دونوں باتوں کا جواب دے دیا اور عرض مدعو بھی کر دی۔ لیکن وزیر کے مزاج کی برہمی یوں کم نہ ہو سکتی تھی۔ اس نے کچھ تیز لہجے میں کہا: ’’نواب صاحب نے شاید غور نہ فرمایا کہ ایسے بھی ہو سکتے ہیں ترک تمنا ہی جنہیں سب کچھ مل جانے کے مترادف ٹھہرے‘‘۔
’’بھلا وہ کون؟‘‘۔ ضیاء الدین احمد نے شاید تجاہل عارفانہ سے کام لیا۔
وزیر نے جواب میں کلیم ہمدانی کا شعر پڑھا
قطع امید کردہ نہ خواہد نعیم دہر
شاخ بریدہ را نظرے بر بہار نیست
’’آپ خدانخواستہ شاخ بریدہ کیوں ہونے لگیں؟ ابھی تو نہال آروز میں آپ کے برگ و بار کے اسرار بہت پوشیدہ ہیں‘‘۔ ضیاء الدین احمد نے کہا۔
’’مجھے خوش فہمی میں مبتلا کرنے کی اس کوشش کا شکریہ، لیکن صاحب خانہ ہی کیف و کم خانہ کو سمجھتا ہے۔ اور پھر یہ بھی ہے کہ ہر نہال حیات کو باثمر کرنے کا گن ہر باغبان کو نہیں آتا۔ ہر نخلے و ہر باغبانے آپ کے سمع مبارک تک پہنچا تو ہوگا سرکار‘‘۔
یہ جملہ کہہ کر وزیر نے بخیال خود تمام باتیں صاف کر دی تھیں کہ ضیاء الدین احمد خان کو اس باغ سے پھل کی امید نہ رکھنی چاہئے۔ لیکن ہزار فہم و فراست کے باوجود ضیاء الدین احمد اپنے وقت کے انسان تھے۔ ان کے حسابوں تو یہ غیر ممکن تھا کہ کوئی عورت انتخاب اور پسندیدگی کے سوالوں سے کوئی سروکار بھی رکھے۔ انتخاب تو مرد کا حق تھا اور پسند کرنا نہ کرنا بھی مرد ہی کا معاملہ تھا۔ یا شاید ایسا تھا کہ نواب ضیاء الدین احمد میں حس مزاح شاید کم تھی اور وہ اس صورت حال کے ظرافتی پہلو تک نہ پہنچ سکے تھے کہ کوئی عورت انہیں باتوں میں اڑا کر لطف لے سکتی تھی اور بہرحال اس کے لئے ضیاء الدین احمد خان کا اس کے یہاں آنا کسی دلکشی کا حامل نہ تھا۔ (جاری ہے)

Comments (0)
Add Comment