محمود غزنویؒ کے والد کا نام سبکتگین تھا۔ یہ پہلے الپتگین کا غلام تھا اور پھر اس کی فوج کا جرنیل بنا۔ یہ ترک تھے اور ترکوں میں ایسے ہی ناموں کا رواج تھا۔ کہتے ہیں کہ محمود کی بہت سی خوبیاں اس کے باپ کی تربیت کا نتیجہ تھیں۔ سبکتگین یوں تو غلام مشہور تھا۔ لیکن درحقیقت اس کا تعلق ایران کے ساسانی شاہی خاندان سے تھا۔ بہادر جرنیل اور خدامست اور خدا یاد درویش تھا۔ اس نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا خود منوایا۔ حتیٰ کہ الپتگین نے اپنی بیٹی اور بادشاہت دونوں اس کے حوالے کر دیں۔ امیر ناصر الدین سبکتگین کے نام سے بیس سال غزنی پر حکومت کی۔
اس کے بارے میں یہ قصہ مشہور ہے کہ جوانی میں شکار کے لیے گیا تو ہرن کا ایک بچہ زندہ پکڑ لیا۔ ساتھ لارہا تھا تو اچانک پیچھے نظر پڑی تو دیکھا کچھ فاصلے پر ایک ہرنی جو اس بچے کی ماں تھی۔ ملتجیانہ یعنی منت سماجت کے انداز میں اپنی جان سے بے پروا دوڑتی چلی آرہی تھی۔ محمود کے والد سبکتگین کو ترس آیا اور اس نے ہرنی کے بچے کو چھوڑ دیا۔
رات کو خواب میں نبی کریمؐ کی زیارت ہوئی۔ آپؐ نے فرمایا: خدا تعالیٰ کو تمہاری رحم دلی بہت پسند آئی ہے، اس رحم دلی کے صلے میں تمہارے خاندان کو ایک طویل اور کامیاب حکومت انعام میں دی گئی ہے۔
یہ خواب بالکل سچا ثابت ہوا۔ سبکتگین سادہ مزاج اور ظاہری شان و شوکت سے دور رہتا تھا۔ محمود خوش مزاج اور خوش ذوق تھا۔
اس نے جوانی میں ایک خوب صورت اور عالیشان محل بنوایا اور پھر خوب سجایا بھی۔ عیش و آرام اور خوش منظری کے سارے لوازمات پورے کئے۔ اس پُرشکوہ محل کو دیکھنے کے لیے باپ سے درخواست کی۔ باپ آیا تو محل کو دیکھ کر چہرہ سپاٹ صاف و سادہ رہا۔ داد کا کوئی اثر نہ دیکھا۔ یعنی واہ واہ اور تعریف وغیرہ نہ کی اور محمود نے پوچھا: ابا جان! آپ کو یہ محل پسند نہیں آیا؟ تو والد نے جواب دیا کہ بیٹا کوئی ایسا کام کرنا چاہئے، جو باقی رہے یہ سب کچھ فانی اور ختم ہونے والا ہے۔
آج صدیاں بیت چکی ہیں۔ مسلمان محمود کے زندہ اور باقی رہنے والے کردار کو سلام پیش کرتے ہیں اور دعائیں دیتے ہیں اور علیہ الرحمۃ کے الفاظ سے یاد کرتے ہیں اور پورے غزنی میں اس کی بنائی ہوئی شاندار عمارتیں اور محلات سب ختم اور فنا ہو چکے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
ترجمہ: ’’جو کوئی زمین پر ہے فنا ہونے والا ہے۔‘‘ (الرحمن آیت 26)
انسانوں کی عمر کم کردی گئی
حضرت نوح ؑ کے زمانے تک لوگ نہایت طویل العمر اور قلیل الامراض (یعنی عمر لمبی اور بیماریاں کم) ہوتے تھے، لیکن طوالت عمر اور قلت امراض کے غرور میں موت کو بھول کر وہ حد سے زیادہ گناہ کرنے لگ گئے، جس کے عذاب میں ان پر پانی کا طوفان بھیج کر سب کو ہلاک کردیا گیا۔ خدا تعالیٰ نے حضرت نوحؑ سے وعدہ فرمایا کہ آئندہ دنیا کو طوفان سے نابود اور ختم نہ کروں گا۔ اس لئے رب تعالیٰ نے آدمیوں کی عمریں کم کردیں اور امراض بڑھا دیئے کہ نہ زیادہ عمریں ہوں گی اور نہ گناہوں کا طوفان برپا ہوگا، جس کے سبب مجھے پھر ان کو طوفان میں غرق کرنا پڑے (رب تعالیٰ کا کوئی فعل حکمت و دانائی سے خالی نہیں ہوتا۔)
حضرت جبرئیلؑ نے ایک دن حضرت نوحؑ کی خدمت میں عرض کیا کہ آپؑ کی عمر مبارک سب پیغمبروں سے زیادہ ہوئی، آپؑ نے دنیا کو کیسا پایا؟ فرمایا مجھے ایسا معلوم ہوا کہ ایک مکان کے دو دروازے ہیں، ایک میں سے اندر گیا اور دوسرے میں سے باہر نکل آیا۔ (محزن اخلاق 588)