بالآخر میرا انتظار رنگ لایا۔ میں نے دیکھاکہ سچن لحاف میں کسمسایا، اس نے کروٹ بدلی اور پھر گہری نیند میں کھو گیا۔ لیکن لگ بھگ دس منٹ بعد اس نے ایک بار پھر کروٹ بدلی۔ اب اس کا جسم اپنی بستر شریک سے بالکل متصل تھا۔ اس نے نیند میں یا نیم خوابی میں اپنا ہاتھ بڑھایا اور پہلو میں موجود کامنی کے اوپر رکھ دیا اور شاید دوبارہ سوگیا۔ لیکن کچھ ہی دیر میں وہ ایک بار پھر کسمسایا اور بالآخر اٹھ کربستر پر بیٹھ گیا۔ اس کا اوپری بدن برہنہ دکھائی دے رہا تھا۔ اس نے چندھیائی ہوئی آنکھوں سے گویا ماحول کو سمجھنا چاہا۔ پھر اس کی نظریں کامنی پر جم گئیں۔ میں نے اس کے چہرے پر عجیب سرور آمیز مسکراہٹ دیکھی۔ اس دوران میرا کیمرا اس کی دو تین تصویریں بنا چکا تھا۔
پھر میں نے اسے مسہری کے اونچے سرہانے سے شب خوابی کا لبادہ اٹھاکر پہنتے دیکھا۔ وہ بستر سے اترا اور غسل خانے میں چلا گیا۔ اس اثنا میں میری نظریں کامنی پر جمی ہوئی تھیں۔ سچن کے لحاف ہٹاکر اٹھنے کے دوران اس کے جسم کا اوپری حصہ چند لمحوں کے لیے کھلا تھا، لیکن اس نے فوراً ہی، غالباً نیند کے عالم میں ہی خود کو دوبارہ لپیٹ لیا تھا۔ البتہ اب اس کا چہرہ لحاف سے باہر تھا۔ چند فٹ کے فاصلے سے مجھے اس کے چہرے کا بغور جائزہ لینے میں کوئی دشواری نہیں ہوئی۔ وہ گندمی رنگت کی قبول صورت عورت تھی، جسے سرخی، پاؤڈر اور غازے کا ماہرانہ استعمال حسن کا شاہ کار بنا دیتا ہوگا۔ جبکہ اس کی شخصیت میں وہ خاص کشش بھی فراواں تھی، جو خریداروں کو بے ساختہ ایسی عورتوں کی طرف کھنچے چلے آنے پر مجبور کر دیا کرتی ہے ۔ اس کی عمر تیس، بتیس سال رہی ہوگی۔
میں نے غسل خانے سے آنے والی آوازوں سے انداز ہ لگانے کی کوشش کی۔ بظاہر سچن کی جلد واپسی کے کوئی آثار نہیں تھے۔ میں نے کامنی کی دو تصویریں اتاریں، لیکن مجھے لگا کہ اپنے مقصد کو پورا کرنے کے لیے مجھے اس کے چہرے کے قریب سے عکس کشی کرنی چاہیے۔ لہٰذا میں پردے کے پیچھے سے نکلا اور یکے بعد دیگرے اس کے دوتین کلوز اپ لے لیے۔ عین اسی وقت وہ کسمسائی۔ غالباً اس کی چھٹی حس نے اسے خبردار کیا ہوگا۔ اس کے بیدار ہونے کے آثار دیکھ کر میں ہوا کے جھونکے کی طرح بستر کے دوسری طرف والے پردے کے پیچھے جا چھپا۔ میں نے دیکھا کہ وہ دوبارہ خوابوں میں کھوگئی ہے۔
تاہم اس کی پُرسکون نیند زیادہ دیر برقرار نہ رہ سکی۔ میں نے سچن کو غسل خانے سے باہر آتے دیکھا۔ اس نے غالباً نیند بھگانے کے لیے غسل کیا تھا یا کم ازکم چہرے پر پانی کے چھپکے مارے تھے۔ اب وہ پوری طرح بیدار دکھائی دے رہا تھا۔ میرے دیکھتے ہی دیکھتے وہ بستر کی طرف بڑھا اور اس نے کامنی کے جسم پر لحاف کھینچ لیا۔ کامنی نے جاگنے پر خفگی سے اسے بنگلہ لہجے میں جنگلی اور اجڈ جیسے القاب سے نوازا، لیکن سچن اس موقع پر اس کی کسی بات کا برا ماننے کے موڈ میں نہیں تھا۔
لگ بھگ دو گھنٹے بعد میں ان دونوں کو مردوں جیسے گہری نیند میں ڈوبا چھوڑ کر خواب گاہ سے نکلا تو میرا دل خوشی سے اچھل رہا تھا۔ مجھے یقین تھا کہ سچن کی گردن پوری طرح میرے شکنجے میں آچکی ہے اور اب وہ میرے اشارے پر مجبور ہے۔ کوارٹر کی دیوار پھلانگنے سے پہلے میں نے احتیاطاً گرد و نواح کا بغور جائزہ لیا اور پھر دیوار چڑھ کر دوسری طرف اتر گیا۔ میری ٹیکسی درخت کے نیچے نہایت وفاداری سے میرا انتظار کر رہی تھی۔ سرد موسم کے باوجود چابی گھماتے ہی اس کا انجن ایک ہلکی جھرجھری لے کر جاگ اٹھا۔
میں اپنے گھر پہنچا تو زیادہ رات باقی نہیں بچی تھی۔ لیکن ہیجان کے عالم میں مجھے نیند نہ آسکی۔ میں نے فجر کی نماز کے ساتھ اپنے رب کے حضور سجدہ شکر ادا کیا اور چند گھنٹے آرام کے بعد اپنی ٹیکسی لے کر نکل کھڑا ہوا۔ اسلم نے گزشتہ ملاقات میں بومبے کے مختلف علاقوں میں چند مخصوص مقامات بتائے تھے، جہاں کے ٹیکسی اسٹینڈ پر اسے ڈھونڈا جا سکتا تھا۔ مجھے جلد از جلد اس سے ملنا تھا۔ لہٰذا میں ایک جگہ سے دوسری جگہ دھکے کھاتا رہا اور بالآخر کولابا میں براڈ وے سینما کے قریب وہ مجھے مل گیا۔ میں نے اس کی ٹیکسی کے قریب چند لمحوں کے لیے اپنی ٹیکسی روکی اور اسے آنکھ کا اشارہ کر کے وہاں سے چل پڑا ۔
کچھ آگے جانے کے بعد میں نے عقب نما آئینے میں دیکھا۔ وہ میرے پیچھے پیچھے آرہا تھا۔ اس کے بعد اس نے مجھے اوور ٹیک کرلیا۔ اب میں اس کا تعاقب کر رہا تھا۔ اس نے آگے جاکر غالباً چوپاٹی کے ساحل کی طرف جانے کے لیے ایک موڑ مڑا، لیکن میں رفتار تیز کر کے اس سے آگے نکلا اور اسے اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا۔ آگے پیچھے چلتے ہوئے ہم کچھ ہی دیر میں بھنڈی بازار میں واقع میرے گھر پہنچ چکے تھے۔
اسلم نے گرم جوشی سے مصافحہ کرنے کے بعد پوچھا ’’خیریت تو ہے بھیا؟ کوئی ایمرجنسی پڑگئی کیا؟‘‘۔
میں نے اثبات میں سر ہلاکر اپنا جوش و مسرت قابو میں رکھنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے کہا ’’ہاں اسلم بھائی، بس یوں سمجھ لو کہ اللہ رب العزت نے خصوصی مہربانی کردی!‘‘۔
اس نے سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھا اور پھر میری کیفیت بھانپتے ہوئے خوش ہوکر بولا ’’لگتا ہے کوئی بڑی خوش خبری ہے۔ جلدی سے بتاؤ بھائی، کیا کوئی سکسر لگ گیا ہے؟‘‘۔
میں نے کہا ’’کچھ ایسا ہی ہے بھائی۔ پنچھی جال میں پھنس گیا ہے۔ اللہ نے چاہا تو ہم اپنے مقصد میں کسی نہ کسی حد تک کامیاب ہو جائیں گے‘‘۔ (جاری ہے)