سوال: میرا نام سیماب اختر ہے، میں ایک دکان میں نوکری کرتا ہوں، نام ہے خان فاریکس، یہاں کرنسی کے تبادلے کا کام ہوتا ہے اور باہر کے ملکوں سے جو پیسے بھیجتے ہیں تو یہاں کسٹمرز کی Payment بناکر ان کو نقد اپنے پاس سے دیتے ہیں، بعد میں وہ پیسہ مالک یعنی خان فاریکس کے اکائونٹ میں آجاتا ہے، ان کے پاس کچھ کمپنیوں کی ایجنسیاں ہیں جیسے ویسٹرن یونین، منی گرام، ایکس پریس منی، رائے منی، ٹرانس فاسٹ، ان میں کسٹمرز کے پیسے آتے ہیں، ان کے پاس ایجنسی ہے، اس لیے اگر ان کے کائونٹر سے Payment ہوتی ہے تو کمپنی ان کو کمیشن دیتی ہے جو بہت کم ہوتی ہے، یہ سب کچھ کسٹمرز کی Payment اتنا ہی اماؤنٹ یعنی جتنا آیا ہوتا ہے، اس کو دے دیتے ہیں۔ کچھ کسٹمرز کالے لوگ حبشی وغیرہ ان کی روزانہ ٹرانزیکشن (لین دین کا عمل) ہوتی ہے، تو یہ مالک ان سے اس Payment کے بدلے میں پانچ فیصد یا چار فیصد یا تین فیصد یا ٹوٹل امائونٹ میں سے ہزار یا پانچ سو لیتے ہیں یا کمیشن یہ اضافی لیتے ہیں اور یہ دوسرے لوگوں کے پاسپورٹ پر دوسرے لوگوں کی Payment بھی منگوا دیتے ہیں، یعنی کسی کسٹمر کو رقم دی تو اس کا ڈاکومنٹ تو ہوتا ہی ہے، اسی ڈاکومنٹ (دستاویز) پر دوسرے کا پیسہ منگوا دیتے ہیں اور ان سے اضافی کمیشن لیتے ہیں۔ دوسرے کے ڈاکومنٹ پر جو ٹرانزیکشن کرتے ہیں کہ کسی نے پہلے ٹرانزیکشن میں ڈاکومنٹ دیا، اب اس کی اضافی نقل کرلیتے ہیں، اس کو بتائے بغیر اس سے چھپا کر اور پھر اس آئی ڈی پر دوسرے کسٹمرز کے پیسے منگاتے ہیں اور اس سے اضافی کمیشن لیتے ہیں، جبکہ کمپنی ان کو کمیشن دیتی ہے وہ بہت کم ہے اور سم کارڈ بیچتے ہیں اور دوسرے کی آئی ڈی پر سم کارڈ نکال کر بیچتے ہیں اور منافع کماتے ہیں۔ یہ فوٹو کاپی مشین رکھتے ہیں جس سے اضافی دستاویز کاپی کر لیتے ہیں اور اس کا استعمال ٹرانزیکشن میں اور سم نکالنے میں کرتے ہیں، کیونکہ میں دکان پر رہتا ہوں اس لیے مجھے بھی ان کی غیر موجودگی میں یہ کام کرنا پڑتا ہے، کیا مجھے ایسا کرنا چاہئے، اگر میں منع کروں گا تو اختلاف ہوگا اور مجھے نوکری چھوڑنی ہوگی، کیا یہ کام شریعت کی نظر میں درست ہے؟ یہ کس درجہ کا عمل ہے؟ کیونکہ میں نوکری کرتا ہوں، کیا میرا اِن کے یہاں کام کرنا درست ہے؟ اور میری کمائی حلال ہے ؟ مہربانی کرکے رہنمائی فرمائیں۔
جواب: کسی دوسرے کی دستاویز کی چوری اور اس کا غلط استعمال نیز کسی آئی ڈی کی کاپی کرلینا اور اس پر سم نکال کر دوسرے کو دیدینا جائز نہیں۔ یہ دھوکہ کے ساتھ قانوناً بھی جرم ہے، پکڑے جانے پر جان مال عزت وآبرو کا خطرہ لاحق ہوسکتا ہے، اس لیے اس چیز کی ملازمت جائز نہیں اور اس سے حاصل آمدنی بھی حلال وطیب نہیں ہے، آپ اس طرح کے کاموں سے گریز کریں۔ (فتویٰ :534 -472/L=5/1439، دارالافتائ، دارالعلوم دیوبند)
ہیٹ گن کا استعمال کرنا
سوال: آج کل ہمارے علاقے میں 24 گھنٹے کے دوران بمشکل 2 گھنٹے گیس آتی ہے اور وہ 2 گھنٹے بھی ایسے نہیں کہ جن میں کھانا مکمل پک سکے (یعنی گیس بہت کم ہوتی ہے) اور ہر شخص اس قابل نہیں کہ وہ سلنڈر کا استعمال بھی کر سکے کہ آج کل سلنڈر گیس 150 روپے کلو ہے، ماہانہ 2 سے 3 ہزار کا خرچہ ہے۔ اس صورت میں کچھ لوگ ہیٹ گن کا استعمال کرتے ہیں۔ ہیٹ گن ایک کمپریسر کی طرح گیس کھینچ کر اس کا پریشر بڑھا دیتی ہے۔ کچھ تو اس کا استعمال فقط کھانا پکانے کی حد تک کرتے ہیں اور کچھ اس کو عام استعمال کرتے ہیں یعنی ہیٹر، گیزر وغیرہ سب اسی پر سارا دن چلتے ہیں۔ حالانکہ حکومت کی طرف سے بھی اس پر پابندی ہے۔ اس کے بارے میں رہنمائی فرما دیں کہ آیا کہ یہ ’’الضرورات تبیح المحظورات‘‘ کے تحت کسی صورت میں یہ جائز ہو سکتی ہے؟ اگر جائز ہو گی تو اس کی دلیل اور جواز کی حد کیا ہو گی؟ یا یہ کسی صورت جائز نہیں ہے؟ اگر جواز کی کوئی صورت نہیں ہے تو اس کا استعمال کرنے والے حرام کے مرتکب ہیں یا حرام سے نچلے درجے پر گناہ گار ہیں؟ براہ کرم شرعی راہنمائی عطا فرمائیں۔
جواب: اگرہیٹ گن کے استعمال سے دوسرے صارفین کو نقصان پہنچتا ہے، اس کی وجہ سے بعض لوگ اپنی گیس وصول نہیں کر پاتے ہیں یا بہت کم وصول کرتے ہیں، یعنی ہیٹ گن دوسروں کی گیس چوری کرنے کی اگر ایک مشین ہے، تو ہیٹ گن کا استعمال شرعاً ناجائز ہوگا اور یہ حرام درجے کا گناہ سمجھا جائے گا، آپ نے جو قاعدہ ذکر کیا ہے: الضرورات تبیح المحظورات، اس کی وجہ سے ہیٹ گن کا استعمال جائز نہیں ہوگا، اس قاعدہ کا محمل دوسرا ہے، عموماً لوگ اس قاعدہ کا غلط مطلب سمجھ لیتے ہیں، اس میں جس ضرورت کے تحت ناجائز امر کے استعمال کی گنجائش دی گئی ہے، اس ضرورت کا یہاں تحقق نہیں ہو رہا ہے، علاوہ ازیں یہاں تو دوسرے کے حق کو نقصان پہنچانا بھی پایا جارہا ہے، لہٰذا اس قاعدہ کا صورت مسئولہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ (فتویٰ:391-378/sd=5/1439