معارف القران

معارف و مسائل

صحف موسیٰؑ و ابراہیمؑ کی خاص ہدایات و تعلیمات:
انبیائے سابقین میں سے جب کسی کا قول یا کوئی تعلیم قرآن میں ذکر کی جاتی ہے تو اس کا حاصل یہ ہوتا ہے کہ اس امت کے لئے بھی وہ واجب العمل ہے، جب تک اس کے خلاف کوئی نص شرعی نہ ہو، آگے اٹھارہ آیتوں میں ان خاص تعلیمات کا ذکر ہے جو حضرت موسیٰ و ابراہیم علیہما السلام کے صحیفوں میں تھیں، ان میں عملی احکام جن کا تعلق سابقہ آیات کے ساتھ ہے وہ صرف دو ہیں، باقی تعلیمات عبرت و نصیحت اور حق تعالیٰ کی آیات قدرت سے متعلق ہیں، وہ دو یہ ہیں:
اَلَّا تَزِرُ وَازِرَۃٌ… وزر کے معنی دراصل بوجھ کے ہیں اور پہلی آیت کے معنی یہ ہیں کہ کوئی بوجھ اٹھانے والا اپنے سوا کسی دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا۔ بوجھ سے مراد گناہ کا بوجھ اور اس کا عذاب ہے۔ مطلب یہ ہے کہ قیامت کے روز ایک شخص کا عذاب دوسرے پر نہیں ڈالا جائے گا، نہ کسی کو اس کا اختیار ہوگا کہ وہ دوسرے کا عذاب اپنے سر لے لے۔ قرآن کریم کی ایک دوسری آیت میں اس کا بیان اس طرح آیا ہے ’’اگر کوئی گناہوں کے بوجھ سے لدا ہوا شخص لوگوں سے درخواست کرے گا کہ میرا کچھ بوجھ تم اٹھا لو تو کسی کی مجال نہیں ہوگی کہ اس کے بوجھ کا کوئی حصہ اٹھا سکے۔‘‘
ایک کے گناہ میں دوسرا نہیں پکڑا جائے گا
اس آیت میں اس شخص کے خیال کی بھی تردید ہوگئی جس کا ذکر شان نزول میں آیا ہے کہ وہ مسلمان ہوگیا تھا یا ہونے والا تھا، اس کے ساتھی نے ملامت کی اور اس کی ضمانت لی کہ قیامت میں تجھ پر کوئی عذاب ہوا تو وہ میں اپنے سر پر لے کر تجھے بچا دوں گا ، اس آیت سے معلوم ہوا کہ ایسے معاملہ کا خدا کے یہاں کوئی امکان نہیں کہ کسی کے گناہ میں کسی دوسرے کو پکڑ لیا جائے۔
اور ایک حدیث میں یہ آیا ہے کہ جس میت پر اس کے گھر والے ناجائز نوحہ و بکا کرتے ہیں تو ان کے اس فعل سے میت کو عذاب ہوتا ہے (کما ورد فی الصحیحین عن ابن عمرؓ) تو یہ اس شخص کے بارے میں جو خود بھی میت پر نوحہ خوانی ، گریہ زاری کا عادی ہو، یا جس نے اپنے وارثوں کو اس کی وصیت کی ہو کہ میرے بعد نوحہ و بکا کا انتظام کیا جائے (مظہری) اس صورت میں اس پر عذاب خود اس کے اپنے عمل کا ہوا، دوسروں کے عمل کا نہیں۔ (جاری ہے)

Comments (0)
Add Comment