نورالدین زنگیؒ کا خواب:
یہ واقعہ 557ھ میں رونما ہوا۔ ایک رات جبکہ ملک العادل نورالدین زنگیؒ سورہا تھا۔ اسے خواب میں سرور کونینؐ کی زیارت نصیب ہوئی۔ اس وقت نبی اکرمؐ کے ساتھ دوآدمی اور بھی تھے۔ آپؐ نے نورالدین زنگی کو مخاطب کر کے فرمایا: ’’نورالدین! یہ دو آدمی ہمیں ستا رہے ہیں، ان کے شر کا خاتمہ کردو۔‘‘
نورالدین زنگیؒ اسی وقت بیدار ہوا، وضو کیا، نفل پڑھے اور سوگیا۔ اس نے دوبارہ وہی خواب دیکھا، پھر اٹھا، وضو کیا اور نفل ادا کیے۔ پھر لیٹنے کے بعد تیسری بار وہی خواب دکھائی دیا۔ اب کی بار اس نے دشمنان رسولؐ کو نہایت گہری نظر سے دیکھا اور ان کی تمام علامتیں بطور شناخت اچھی طرح ذہن میں محفوظ کرلیں کہ ہو نہ ہو مدینہ منورہ میں ضرور کوئی فتنہ کھڑا ہوگیا ہے، جس کی سرکوبی کا مجھے حکم دیا جارہا ہے۔
اس نے اپنے وزیر کو طلب کیا اور مدینہ پہنچنے کیلئے ضروری تیاری کا حکم دیا، چنانچہ تیاری مکمل ہونے پر صلاح الدین ایوبی کا پیش رو یہ تاریخ ساز سلطان مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوگیا اور دو ہفتوں میں وہاں پہنچ گیا۔ مدینہ منورہ میں قیام کے بعد اس نے وہاں کے حکام کو حکم دیا کہ شہر کے تمام باشندے میرے روبرو پیش کیے جائیں۔ کوئی شخص غیر حاضر نہ رہے۔ میں ہرشخص سے فرداً فرداً ملاقات کرنا چاہتا ہوں، ہر شخص کی حاضری یقینی بنانے کیلئے تمام ضروری تدابیر بروئے کار لائی جائیں، چنانچہ تمام اہل مدینہ سے ملاقاتیں کی گئیں، دعوتیں ہوئیں۔ انعامات کی بارش کی گئی ، مگر سلطان کو مطلوبہ شرپسند افراد نظر نہیں آئے۔
آخر ایک دن سلطان نے حکام مدینہ سے دریافت کیا: کیا کوئی ایسا شخص رہ گیا ہے، جس نے ہم سے ملاقات نہ کی ہو؟ جواب ملا ایسا کوئی شخص نہیں رہ گیا، البتہ دو مغربی آدمی ہیں۔ وہ نہایت متقی، درویش، سخی اور عفیف ہیں، اپنے حجرے ہی میں رہتے ہیں، ذکر الٰہی میں مصروف رہتے ہیں اور لوگوں سے کوئی میل جول نہیں رکھتے۔ سب سے بے نیاز ہیں۔
سلطان نے سختی کے ساتھ انہیں حاضر کرنے کا حکم دیا اور پھر جونہی سلطان کے روبرو لائے گئے وہ فوراً پہچان گیا کہ مطلوبہ شرپسند یہی دونوں آدمی ہیں۔ سلطان نے انہیں بحیثیت مجرم شناخت کیا، مگر رائے عامہ کا اصرار تھا کہ یہ بڑے درویش اور بے ضرر لوگ ہیں۔ سلطان انہیں ساتھ لے کر فوراً ان کے حجرے میں جا پہنچا۔ انہیں حجرے کے باہر کھڑا کردیا اور خود اندر چلا گیا۔ کہتے ہیں: وہاں سلطان کو ایک طاقچے پر قرآن حکیم کا ایک نسخہ ملا۔ کچھ پندو نصائح کی کتابیں ملیں۔ ایک طرف مال کا ڈھیر ملا، جسے وہ فقرائے مدینہ پر صرف کیا کرتے تھے۔ مگر سلطان تو کمرے میں کچھ اور تلاش کررہا تھا۔ آخر اس نے فرش پر بچھی ہوئی چٹائیاں اٹھوائیں اور فرش کا چپہ چپہ غور سے دیکھا۔ ایک سل اپنی جگہ سے اکھڑی ہوئی تھی اور اپنی داستان اپنی زبان سے سنا رہی تھی۔ یہ سل اٹھائی گئی تو معلوم ہوا کہ اس کے نیچے ایک سرنگ کا دہانہ ہے اور اس کا دوسرا سرا روضۂ اطہر کے اندر پہنچ رہا تھا۔
ایک روایت کے مطابق روضۂ اطہر میں نقب لگانے والے سیدنا عمر فاروقؓ کے جسد مبارک تک پہنچ چکے تھے اور قبر سے سیدنا عمرؓ کا پاؤں نظر آرہا تھا۔
پس پھر کیا تھا، دونوں درویش صورت اور شیطان سیرت مجرم فوراً دھر لئے گئے۔ تحقیق پر یہ راز کھلا کہ یہ دونوں یہودی تھے اور روضۂ اطہر سے بذریعہ سرنگ نبی اکرمؐ کے جسد مبارک کو نکال کر لے جانے کا منصوبہ بنا کر آئے تھے۔ یہ لوگ دن بھر حجرے میں عبادت کرتے اور رات کے وقت سرنگ کھودنے کا کام کرتے اور مٹی کو مشکیزوں میں بھر کر باہر پھینک آتے تھے۔ نور الدین زنگیؒ نے ان دونوں کو فوراً قتل کردیا۔
(جاری ہے)
٭٭٭٭٭