میں امریکی خواتین کو بتاتی ہوں کہ اس کے برعکس اسلام نے آج سے چودہ سو سال پہلے خواتین کو جو حقوق عطا کیے تھے، اس کی انسانی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ بحیثیت بیٹی، بہن، بیوی اور ماں اسے خاص احترام اور حقوق حاصل ہیں۔ باپ، خاوند، بھائیوں اور بیٹوں کی جائیداد سے اسے حصہ ملتا ہے اور طلاق کی صورت میں اولاد کی کفالت کا ذمہ دار شوہر ہوتا ہے۔ شادی کے موقع پر خاوند کی حیثیت کے مطابق اسے معقول رقم (یعنی مہر) کا مستحق قرار دیا گیا ہے۔ خاوند کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ اپنی شریک حیات کے ساتھ بہترین سلوک روا رکھے اور اس کی غلطیوں کو معاف کرے اور اس باپ کے لیے جنت میں اعلیٰ ترین انعامات کی خوش خبری دی گئی ہے، جو اپنی بچیوں کی محبت اور شفقت سے پرورش کرتا اور ان کی دینی تربیت کر کے انھیں احترام سے رخصت کرتا ہے اور اس اعزاز کی تو کہیں ادنیٰ سی بھی مثال نہیں ملتی کہ ماں کے قدموں میں جنت قرار دی گئی ہے اور باپ کے مقابلے میں اسے تین گنا واجب الاحترام قرار دیا گیا ہے۔
میں جب یہ تقابلی موازنہ کرتی ہوں تو امریکی عورتوں کے منہ حیرت سے کھلے رہ جاتے ہیں۔ وہ تحقیق کرتی ہیں، مطالعہ کرتی ہیں اور جب انہیں یقین ہو جاتا ہے کہ میں صحیح بات کرتی ہوں اور واقعتاً اسلام نے عورت کو غیر معمولی حقوق و احترام عطا کیا ہے، تو وہ اسلام قبول کر لیتی ہیں، چنانچہ خدا کا شکر ہے کہ اب تک میرے ذریعے سے تقریباً 600 امریکی خواتین دائرئہ اسلام میں داخل ہو چکی ہیں۔
خواتین میں تبلیغ کے ساتھ ساتھ میرا ہدف شعبہ تعلیم ہے، جس کے نصابات میں اسلام کے بارے میں طرح طرح کے اعتراضات و الزامات ہیں۔ ٹی وی پروگراموں میں بھی جا بے جا اسلام کے خلاف زہر افشانی کی جاتی ہے، چنانچہ میں نے عزم کر لیا ہے کہ اس تکلیف دہ صورت حال کی اصلاح کرنی چاہیے، اس کے لیے میں اکیڈمی آف ریلی جیس سائنس کے کار پردازوں سے ملی، یہی لوگ نصابات اور ٹی وی پروگراموں میں اسلام کی غلط تصویر کشی کے ذمہ دار ہیں۔ میں نے اصرار کے ساتھ ان سے بحث مباحثہ کیا اور انہیں قائل کیا کہ اگر نشان دہی کر دی جائے تو وہ متعلقہ حصوں کی اصلاح کر دیں گے، چنانچہ میں نے مسلمان والدین کو توجہ دلائی۔ امریکہ میں مختلف قسم کی انجمنوں سے رابطہ قائم کیا اور انہیں آمادہ کیا کہ وہ بچوں کی نصابی کتب میں غلط اور قابل اعتراض باتوں کی نشان دہی کریں۔ ان کوششوں کے نتیجے میں اسلامک فاؤنڈیشن (IFOD) کا قیام عمل میں آیا، جس کے تحت نصابی کتابوں میں اسلام کے خلاف منفی اور قابل اعتراض مواد کی نشان دہی کی جاتی ہے، اسی طرح امریکہ کی یونیورسٹیوں میں اسلامیات کا مضمون یہودی، عیسائی اور ہندو پڑھاتے ہیں۔ ہم نے IFOD کی وساطت سے یہ مطالبہ کیا کہ اسلامیات کی تدریس پر صرف مسلمان اساتذہ کا تقرر کیا جائے، مجھے امید ہے کہ ہم یہ مطالبہ منظور کرا لیں گے۔
آخر میں یہ خوش کن خبر بھی سناتی جاؤں کہ میرا وہ خاندان جس نے میرا مکمل سوشل بائیکاٹ کر دیا تھا، خدا کے فضل سے اس کے بیش تر افراد اسلام قبول کر چکے ہیں۔ میرے والد جو مجھے قتل کرنے کے درپے تھے، مسلمان ہو چکے ہیں اور والدہ، سوتیلے والد، دادی، دادا اور خاندان کے کئی دیگر افراد بھی حلقہ بگوش اسلام ہو چکے ہیں، حتیٰ کہ میرا وہ بیٹا جو اپنے عیسائی باپ کے پاس رہتا تھا اور جس کی مذہبی تربیت عیسائیت کے عین مطابق بڑے اہتمام سے ہو رہی تھی، ایک روز میرے پاس آیا اور کہنے لگا: ’’ممی! اگر میں اپنا نام تبدیل کر کے فاروق رکھ لوں تو آپ کے نزدیک کیسا رہے گا؟‘‘ میں پہلے حیرت اور پھر مسرت کے بے پناہ احساس سے سرشار ہو گئی، میں نے اسے گلے سے لگا لیا، پیار کیا اور اسلام کی دعوت پیش کی تو اس نے فوراً ہی کلمہ پڑھ لیا۔ فاروق اب بھی باپ کی تحویل میں ہے، مگر راسخ العقیدہ مسلمان ہے۔ میری وہ بہن جو مجھے پاگل سمجھتی تھی، ایک تقریب میں اس نے میری تقریر سنی، تو بے اختیار تعریف کرنے لگی۔ امید ہے کہ وہ بھی ایک روز دائرئہ اسلام میں آ جائے گی۔ یہ بھی خدا کی عنایت ہے کہ امریکہ میں رہتے ہوئے باپردہ زندگی گزار رہی ہوں۔ اس ملک میں چہرے پر نقاب ڈال کر ادھر ادھر جانا تو ممکن ہی نہیں کہ اس سے بے شمار مشکلات آڑے آتی ہیں، تاہم چہرے اور ہاتھوں کے سوا میں سارے جسم کو ڈھیلے لباس میں مستور رکھتی ہوں، اس میں بھی قدم قدم پر تعصب اور تنگ نظری کا سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ اندازہ کیجیے کہ ایک مرتبہ میں اسی لباس میں ایک بینک میں گئی تو جب تک وہاں موجود رہی، بینک کا گن مین میرے سر پر رائفل تانے کھڑا رہا۔ ایک پی ایچ ڈی خاتون ملازمت کے لیے منتخب ہوئی، مگر اسے پہلے روز ہی اس لیے فارغ کر دیا گیا کہ وہ حجاب میں تھی۔ اس نوعیت کی مثالیں بے شمار ہیں۔ ایک بار میں نے ریڈیو پر بچوں کا پروگرام کیا، اسے ایوارڈ کا مستحق قرار دیا گیا، مگر تقریب سے ایک روز قبل جب کمیٹی کے ارکان سے ملاقات ہوئی اور انہوں نے مجھے اسلامی لباس میں دیکھا تو کمال ڈھٹائی سے انہوں نے ایوارڈ منسوخ کر دیا۔ بہرحال یہ ہے امریکہ کا ماحول اور یہ ہیں وہ رکاوٹیں، جن میں رہ کر مجھے تبلیغ دین کا کام کرنا پڑ رہا ہے۔ دعا کریں کہ حق تعالیٰ مجھے استقامت عطا کرے اور میں آخر وقت تک نہ صرف خود ایمان و یقین سے سرشار رہوں، بلکہ یہ روشنی دوسروں تک بھی پہنچاتی رہوں۔
٭٭٭٭٭