معارف القرآن

معارف و مسائل
دوسرے حکم کا حاصل یہ ہے کہ جس طرح کوئی دوسرے کا عذاب اپنے سر نہیں لے سکتا، اسی طرح کسی کو یہ بھی حق نہیں کہ کسی دوسرے کے عمل کے بدلے خود عمل کر لے اور وہ اس عمل سے سبکدوش ہو جائے، مثلاً ایک شخص دوسرے کی طرف سے نماز فرض ادا کر دے یا دوسرے کی طرف سے فرض روزہ رکھ لے اور وہ دوسرا اپنے فرض نماز و روزے سے سبکدوش ہو جائے، یا یہ کہ ایک شخص دوسرے کی طرف سے ایمان قبول کر لے اور اس سے اس کو مومن قرار دیا جائے۔
آیت مذکورہ کی اس تفسیر پر کوئی فقہی اشکال اور شبہ عائد نہیں ہوتا، کیونکہ زیادہ سے زیادہ شبہ حج اور زکوٰۃ کے مسئلے میں یہ ہو سکتا ہے کہ ضرورت کے وقت شرعاً ایک شخص دوسرے کی طرف سے حج بدل کر سکتا ہے یا دوسرے کی زکوٰۃ اس کی اجازت سے ادا کرسکتا ہے، مگر غور کیا جائے تو یہ اشکال اس لئے صحیح نہیں کہ کسی کو اپنی جگہ حج بدل کے لئے بھیج دینا اور اس کے مصارف خود ادا کرنا، یا کسی شخص کو اپنی طرف سے زکوٰۃ ادا کر دینے کے لئے مامور کر دینا بھی در حقیقت اس شخص کے اپنے عمل اور سعی کا جز ہے، اس لئے اس آیت کے منافی نہیں۔
ایصال ثواب کا مسئلہ:
جبکہ اوپر یہ معلوم ہو چکا کہ آیت مذکورہ کا مفہوم یہ ہے کہ ایک شخص دوسرے کے فرائض ایمان و نماز و روزہ کو ادا کر کے دوسرے کو سبکدوش نہیں کر سکتا، تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ایک شخص کے نفلی عمل کا کوئی فائدہ اور ثواب دوسرے شخص کو نہ پہنچ سکے، ایک شخص کی دعا اور صدقہ کا ثواب دوسرے شخص کو پہنچنا نصوص شرعیہ سے ثابت اور تمام امت کے نزدیک اجماعی مسئلہ ہے ۔(ابن کثیر)
صرف اس مسئلہ میں امام شافعیؒ کا اختلاف ہے کہ تلاوت قرآن کا ثواب کسی دوسرے کو بخشا اور پہنچایا جا سکتا ہے یا نہیں۔ امام شافعیؒ اس کا انکار کرتے ہیں اور آیت مذکورہ کا مفہوم عام لے کر اس سے استدلال فرماتے ہیں ، جمہور ائمہ اور امام اعظم ابو حنیفہؒ کے نزدیک جس طرح دعا اور صدقہ کا ثواب دوسرے کو پہنچایا جا سکتا ہے، اسی طرح تلاوت قرآن اور ہر نفلی عبادت کا ثواب دوسرے شخص کو بخشا جا سکتا ہے اور وہ اس کو ملے گا ۔ قرطبی نے اپنی تفسیر میں فرمایا کہ احادیث کثیرہ اس پر شاہد ہیں کہ مومن کو دوسرے شخص کی طرف سے عمل صالح کا ثواب پہنچتا ہے ، تفسیر مظہری میں اس جگہ ان احادیث کو جمع کردیا ہے، جن سے ایصال ثواب کا فائدہ دوسرے کو پہنچنا ثابت ہوتا ہے۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment