سرفروش

عباس ثاقب
میری بات سن کر اسلم اٹھا اور خوشی کے مارے مجھے سینے سے لپٹا لیا ’’کمال کر دیا چھوٹے بھائی، واقعی کمال کر دیا۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ چند ہی دن میں لنکا ڈھادی۔ میں اس معاملے میں پوری طرح شریک ہوں۔ تم بے فکر ہوکر مجھے سب کچھ بتا سکتے ہو‘‘۔
میں نے بات آگے بڑھانے سے پہلے اپنے پاس محفوظ خفیہ کیمرا نکال کر اس کے سامنے رکھ دیا اور پھر اپنی پوری کارگزاری تفصیل سے اسے بتائی۔ وہ سب سننے کے دوران اس نے کئی بار خوشی اور جوش سے میرے ہاتھ جکڑے اور دوبار گلے لگاکر شاباش دی، حتیٰ کہ مجھے شرمندگی محسوس ہونے لگی۔ ’’اس میں میرا کوئی خاص کمال نہیں ہے بھائی۔ اس لفنگے نے اپنی بدکرداری اور عیاشی کے نتیجے میں خود میرے جال میں گردن پھنسائی ہے‘‘۔
’’تم کچھ بھی کہو، تمھارے کارنامے کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ ان شاء اللہ ہمیں اب آگے بڑھنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ میں ابھی یہ کیمرا افتخار صاحب تک پہنچاتا ہوں، اور اگر وہ چاہیں تو آپ دونوں کی ملاقات کا بندوبست بھی کرواتا ہوں‘‘۔
میں نے مطمئن لہجے میں کہا ’’ٹھیک ہے۔ اگر ممکن ہو تو آج شام تک یہ کیمرا بھی مجھے واپس پہنچا دینا۔ وہ غلیظ شخص شاید آج کل میں پھر اپنا شیطانی رت جگا کرے گا‘‘۔
اسلم نے اثبات میں سر ہلایا ’’ٹھیک ہے، لیکن پہلے افتخار صاحب تک اب تک کی پیش رفت کی رپورٹ پہنچانے دو، ہو سکتا ہے وہ مزید کوئی ہدایت یا مشورہ دینا چاہیں۔ اس کے بعد اپنا آئندہ کا لائحہ عمل ترتیب دو تو بہتر ہے‘‘۔ میں نے اس کے مشورے کی تائید کی۔ کچھ دیر بعد اسلم کیمرے سمیت رخصت ہوگیا اور میں نے بستر کا رخ کیا، جہاں گہری اور سکون بخش نیند نے میرا استقبال کیا۔
میں شام تک گھوڑے بیچ کر سوتا رہا۔ اگر بھوک کی شدت بیدار نہ کرتی تو شاید مزید سوتا۔ میں کھانا کھاکر واپس آیا ہی تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ میری توقع کے مطابق وہ اسلم ہی تھا۔ مجھے اس کا چہرہ خوشی سے چمکتا دکھائی دیا۔ وہ گھر میں داخل ہوتے ہی والہانہ انداز میں مجھ سے لپٹ گیا۔
اس نے ستائش اور مسرت کی فراوانی والے لہجے میں کہا ’’مبارک ہو بھیا، میری طرف سے دل کی گہرائیوں سے مبارک باد۔ اور افتخار صاحب کی طرف سے پُر زور شاباش قبول کرو۔ ہم نے تمہاری کھینچی ہوئی تصویروں کے نیگیٹیوز دیکھے ہیں۔ کل تک پرنٹس بھی آجائیں گے۔ میں نے افتخار صاحب کو سچن اور اس کی بیوی کے باہمی معاملات کی روشنی میں تمہاری آج رات کی کارروائی کی رپورٹ پیش کی تو وہ چونک اٹھے اور تصویروں کے نیگیٹیوز دیکھ کر تو ان کی خوشی اور جوش کی انتہا نہ رہی۔ وہ تمہارے اس تجزیے سے پوری طرح متفق ہیں کہ وہ اُلو کا پٹھا سچن اب واقعی ہمارے پھندے میں آچکا ہے‘‘۔
میں نے مسرور لہجے میں خوشی کا اظہار کیا اور پوچھا ’’اور میرا کیمرا؟‘‘۔
اسلم نے مسکراتے ہوئے کہا ’’وہ بھی کل تک تمہیں مل جائے گا۔ دراصل اس میں بہت خاص قسم کی فلم پڑتی ہے‘‘۔
میں نے قدرے مایوسی سے کہا ’’پھر تو سچن کی آج رات کی سرگرمی میں کیمرے میں محفوظ نہیں کر سکوںگا۔ میرا خیال ہے وہ اپنی بیوی کی گھر سے غیر حاضری سے فائدہ اٹھانے کا کوئی موقع ضائع نہیں جانے دے گا۔ خیر کل رات سہی‘‘۔
اسلم نے میری بات بغور سن کر کہا ’’افتخار صاحب کی رائے یہ ہے، اور میں بھی ان سے متفق ہوں کہ یہ تصویریں سچن کو بلیک میل کرنے کے لیے بہت کافی ہیں۔ ہمارے پاس وقت بہت کم ہے، لہٰذا ہمیں جلد از جلد اس کارروائی کے اگلے اور فیصلہ کن مرحلے کی طرف پیش قدمی کرنی چاہیے‘‘۔
میں نے کچھ غور کرنے کے بعد کہا ’’میں تو اسے بالکل بے بس کرنے کے لیے اس کی کم از کم ایک اور واردات کی تصویر کشی کرنا چاہتا تھا۔ بہرحال جیسا آپ لوگ مناسب سمجھیں‘‘۔
’’افتخار صاحب مزید تبادلہ خیال کے لیے آج شام تم سے ملنے والے ہیں۔ ذرا اس کا طریقہ کار سمجھ لو!‘‘۔ میں ان کی بتائی ہوئی ترکیب غور سے سنتا رہا اور پھر اس پر حسبِ ہدایت عمل کرانے کی یقین دہانی کے ساتھ میں نے اسلم کو رخصت کر دیا۔
مغرب کے بعد میں نے ایک سواری کو ماہم چھوڑا اور وہاں سے چوپاٹی پر سمندر کے کنارے کنارے واقع کئی کلو میٹر طویل سڑک پر خراماں خراماں گاڑی چلانے لگا۔ پھر میں نے چوپاٹی کی ساحلی تفریح گاہ پر چاٹ کے ایک معروف ڈھابے کے عقب میں ٹیکسی کھڑی کر دی اور سمندر کنارے کھڑے ہو کر لہروں کی اٹکھیلیوں کا نظارہ کرنے لگا۔ مجھے لگ بھگ آدھا گھنٹا مزید انتظار کرنا پڑا۔ بالآخر مجھے افتخار صاحب کی گاڑی اسی ڈھابے کی طرف آتی نظر آئی ۔ ڈرائیور نے گاڑی روکی۔ افتخار صاحب گاڑی سے اترے اور ڈھابے کے دائیں طرف ذرا فاصلے پر رکھی ہوئی نشستوں کی طرف بڑھے۔ ان کے ڈرائیور نے گاڑی سے اترنے کی زحمت نہیں کی تھی۔ قدرے توقف کے بعد میں بھی ڈھابے کی طرف چل پڑا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment