نجم الحسن عارف
لاہور میں اورنج لائن منصوبے پر رکا ہوا کام عدالت عظمیٰ کے حکم کے باوجود عملاً شروع نہیں ہو سکا۔ ذرائع کے مطابق عدالتی حکم سے پہلے نئی صوبائی حکومت نے اس منصوبے کیلئے فنڈز روک دیئے تھے۔ صوبائی حکومت نے ایل ڈی اے کو تعمیراتی ضروریات کیلئے مزید فنڈ جاری کرنے سے یہ کہہ کر روک دیا تھا کہ حکومت چاہتی ہے کہ اورنج لائن منصوبے پر پہلے سے خرچ کئے گئے وسائل کا آڈٹ کرائے تاکہ دیکھ سکے کہ خطیر رقم کا استعمال کس قدر درست اور کتنا غلط ہوتا رہا۔ تاہم صوبائی وزیر ہائوسنگ میاں محمودالرشید نے ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ عدالتی حکم کے بعد کام کو شروع ہونا چاہئے۔ لیکن وسائل کی عدم دستیابی آڑے آرہی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جہاں تک ایل ڈی اے کو وسائل کی فراہمی سے منع کئے جانے کا معاملہ ہے، ایسا نہیں ہے۔ اب دونوں کام ساتھ ساتھ ہوں گے۔ آڈٹ بھی ہوگا اور وسائل کی دستیابی کے ساتھ منصوبے کی تکمیل بھی ساتھ ساتھ جاری رہے گی۔
ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اورنج لائن ٹرین کی تکمیل کا اگلے مالی سال کے آغاز سے قبل ہونے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔ چینی وزیر خارجہ کی زیر قیادت دورے پر آیا ہوا وفد بھی اس پر آج بات کرے گا۔ تاہم فوکس پورے ’’سی پیک‘‘ منصوبے پر عمل درآمد کی رفتار، آسانیوں اور مشکلات پر ہوگا۔ واضح رہے کہ چینی حکومت اور کمپنیوں نے اورنج لائن ٹرین کے اس منصوبے کیلئے تقریباً 200 ارب روپے کی خطیر رقم بینک آف چائنا کے توسط سے حکومت پاکستان کو پہلے ہی ادا کر رکھی ہے۔ لیکن اسے بوجوہ بروقت مکمل نہ کیا جا سکا۔ میاں شہباز شریف کی حکومت نے طے کیا تھا کہ وہ اسے دسمبر 2017ء تک مکمل کرے گی۔ تاہم تکمیل کیلئے اس کی مدت مئی 2018ء مقرر کی گئی کہ اسے ہر صورت اگلے عام انتخابات اور شہباز حکومت کی مدت سے پہلے مکمل کیا جائے گا۔ مسلم لیگ نون کے ذرائع کے مطابق شہباز حکومت کی مدت مکمل ہونے سے پہلے اورنج لائن ٹرین کا 92 فیصد سول ورک مکمل کر لیا گیا تھا۔ جبکہ الیکٹرو مکینیکل ورک 78 فیصد مکمل کر لیا گیا تھا۔
شہباز حکومت کے دوران اس منصوبے کی اعلیٰ ذمہ دار شخصیت نے مسلم لیگ نون کے رہنمائوں کو رواں سال ماہ جون کے پہلے ہفتے میں ایک خصوصی بریفنگ کے دوران بتایا تھا کہ اس منصوبے کی تکمیل میں اب صرف 4 ماہ مزید لگیں گے اور یہ اکتوبر میں مکمل ہو جائے گا۔ تاہم یہ بھی باور کرا دیا تھا کہ منصوبہ مکمل ہونے کے باوجود پہلا ایک ماہ اورنج ٹرین بغیر سواریوں کے اپنا آپریشن جاری رکھے گی۔ تاکہ تمام تر خامیوں کو دور کرنے کیلئے جائزہ مکمل ہو جائے اور مسافروں کو مکمل محفوظ اور خطرے سے پاک سفر کی سہولت فراہم کی جاسکے۔ یہ توقع تھی کہ ماہ نومبر میں اورنج لائن ٹرین بروئے کار ہوگی، لیکن اب یہ منزل اور دور چلی گئی ہے۔ مسلم لیگی حکومت کے ابتدائی طور پر کئے گئے اعلان کہ، اس منصوبے کو 27 ماہ میں مکمل کرنا ہے کو دیکھا جائے تو اس منصوبے کو 25 جنوری 2018ء میں مکمل ہو جانا چاہئے تھا۔ 27 ماہ کی مدت کے ہدف میں مکمل ہونے والے اس منصوبے میں 27 کا ہندسہ دو اور حوالوں سے اہم ہے کہ اورنج لائن ٹرین کے ٹریک کی لمبائی بھی 27 کلو میٹر سے کچھ زائد ہے، جبکہ اس ٹریک پر چلانے کے لیے حکومت نے 27 ٹرینیں ہی منگوا کر رکھی ہیں جن میں ماہ مئی کے دوران ایک دو ٹرینوں کو پندرہ کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ابتدائی آزمائش کے طور پر چلایا بھی گیا تھا۔ تاہم یہ آزمائش پورے ٹریک پر نہیں ہو سکی تھی۔ خیال رہے اس منصوبے کے مکمل ہونے سے شہباز حکومت کے مطابق تقریباً 5 ہزار پاکستانیوں کو ملازمت اور روزگار ملنا تھا۔ جبکہ اس کے آپریشن کی ذمہ داری چینی حکام کے ذمے ہونی تھی۔
ذرائع کے مطابق گزشتہ شام پاکستان کے تین روزہ دورے پر پہنچنے والے چینی وزیر خارجہ اور ان کے وفد کے ارکان بھی امکانی طور پر سی پیک سے متعلق دیگر امور کے ساتھ ساتھ اورنج ٹرین منصوبے کے بارے میں بھی سوال و جواب کریں گے۔ ذرائع کے مطابق نئی حکومت کے زیرقیادت کام کرنے والی پنجاب کی ٹرانسپورٹ اتھارٹی کے سربراہ سبطین علی نے جو عدالت عظمیٰ کو بتایا ہے اس کو اگر سچ سمجھا جائے تو اگلے سال ماہ جولائی کے بعد ہی اس منصوبے کی تکمیل ہو سکے گی۔ سبطین علی نے عدالت عظمیٰ کو بتایا ہے کہ وہ یہ منصوبہ 31 مارچ 2019ء تک مکمل کریں گے۔ لیکن اس ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ کچھ کام اس کے بعد مئی کے اختتام تک جاری رہے گا۔1.9 ان ذرائع کے مطابق اگر مئی کے اختتام تک بھی یہ کام مکمل ہو جائے تو اگلا مالی سال شروع ہو جائے گا۔ کیونکہ ایم ڈی پراجیکٹ سبطین فضل علی کے مطابق سول اور میکینکل کا کچھ کام 31 مارچ کے بعد بھی جاری رہے گا۔ یوں مئی کے اواخر میں سارا کام مکمل ہونے کے بعد عالمی قواعد اور معیار کے مطابق ایک ماہ تک ٹرین کا آپریشن مسافروں کے بغیر کرنا ضروری ہوگا۔ اس طرح جولائی اگست 2019ء تک ہی اورنج لائن ٹرین چل سکے گی۔
’’امت‘‘ نے صوبائی وزیر ہائوسنگ اینڈ کمیونیکیشن میاں محمودالرشید سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ اس منصوبے کو بنیادی طور پر ایم ڈی سبطین فیصل علی ہی دیکھ رہے ہیں۔ البتہ ایل ڈی اے کی حد تک ان کے زیرنگرانی، تعمیراتی کام ہے۔ انہوں نے اس امر کی تردید کی کہ حکومت نے آتے ہی اس منصوبے پر کام روکنے کا کہہ دیا تھا اور ایل ڈی اے کو وسائل فراہم کرنے سے منع کر دیا تھا تاکہ پہلے آڈٹ کر لیا جائے۔ میاں محمودالرشید نے کہا اصل مسئلہ اس منصوبے کی تکمیل کیلئے مزید 20 ارب روپے کی فراہمی ہے۔ یہ بہت بڑی رقم ہے۔ لیکن اب جبکہ عدالتی حکم آچکا ہے، لہٰذا آڈٹ کا کام اور تعمیراتی کام ساتھ ساتھ چلیں گے۔ سول ورکس روکنے کی وجہ بھی وسائل کی کمی ہی بنی تھی۔ لیکن اب دونوں کام ہوں گے۔
٭٭٭٭٭