ریلوے کی ایک کھرب مالیت کی اراضی زیر قبضہ

مرزا عبدالقدوس
پاکستان ریلوے کی چار ہزار ایک سو بیس ایکڑ اراضی پر بااثر سیاسی و غیر سیاسی افراد نے قبضہ کر رکھا ہے۔ مقبوضہ اراضی کی مالیت ایک کھرب روپے تک ہے۔ جبکہ وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد کا کہنا ہے کہ اگر اس قبضہ مافیا سے ریلوے کی قیمتی زمینیں واگزار کرالیں اور اس اراضی کا بہتر استعمال کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو صرف یہ ایک ادارہ ہی پاکستان کی معیشت کی بحالی میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے جو اس وقت موجودہ حکومت کی اولین ترجیح اور وقت کی اہم ترین ضرورت اور بڑا مسئلہ ہے۔
پاکستان ریلوے کے لینڈ کمپیوٹرائزڈ ریکارڈ کے مطابق پاکستان میں ریلوے کی کل زمین ایک لاکھ 67 ہزار 690 ایکڑ ہے۔ اس میں سے 4 ہزار 120 ایکڑ اراضی اس وقت مافیا کے قبضے میں ہے، جس کی مالیت انتہائی محتاط اندازے کے مطابق لگ بھگ ایک کھرب روپے تک ہے۔ پاکستان ریلوے کے ذرائع کے مطابق سب سے زیادہ ریلوے کی اراضی پر قبضہ صوبہ پنجاب میں کیا گیا۔ پنجاب میں ریلوے کی کل اراضی 90 ہزار 326 ایکڑ ہے، جس میں سے دو ہزار 76 ایکڑ زمین پر قبضہ ہے۔ اسی طرح سندھ میں 39 ہزار 428 ایکڑ میں سے ایک ہزار 159 ایکڑ پر قبضہ، بلوچستان میں 28 ہزار 228 ایکڑ اراضی میں سے 618 ایکڑ پر قبضہ اور خیبرپختون میں ریلوے کی 9 ہزار 707 ایکڑ اراضی میں سے 251 ایکڑ اراضی پر غیر قانونی طور پر بااثر افراد قبضہ کرچکے ہیں۔ زیادہ تر زرعی اور رہائشی علاقوں میں قابضین بیٹھے ہیں۔
واضح رہے کہ کراچی میں چند سال قبل کئی ایکڑ ریلوے کی اراضی ایک نجی تعمیراتی ادارے کو الاٹ کردی گئی، جس پر سپریم کورٹ نے سوموٹو لے کر اسے منسوخ کردیا اور ریلوے کو اپنی ملکیت دیگر ہزاروں ایکڑ زمین واگزار کرانے کا حکم دیا۔ جس کے نتیجے میں سینکڑوں ایکڑ زمین واپس لی گئی، لیکن ہزاروں ایکڑ اراضی اب بھی قبضہ مافیا کے پاس ہے۔ کراچی، لاہور، ملتان میں ریلوے کی سب سے زیادہ زمین ہے۔ ان شہروں سمیت پشاور، حیدرآباد، سکھر، راولپنڈی میں بھی ریلوے کی سینکڑوں ایکڑ اراضی پر ناجائز طور پر رہائشی کالونیاں، کمرشل سینٹرز اور پلازے موجود ہیں۔ ریلوے نے اپنی اراضی واگزار کرانے کے لئے کچھ عرصہ قبل جب لاہور میں آپریشن کا منصوبہ بنایا تو اس وقت کے وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق اور اسپیکر سردار ایاز صادق جن کے انتخابی حلقوں میں یہ رہائشی کالونیاں تھیں، انہوں نے ہی اس کی مخالفت کی۔ ریلوے ذرائع کے مطابق نون لیگ کے بعض افراد اس قبضہ مافیا کے سرپرست ہیں۔ جبکہ لاہور میں اسی طرح کا الزام موجودہ صوبائی حکومت کے سینئر وزیر علیم خان پر بھی ہے۔ ملک بھر میں ریلوے کی زمین پر بنائی گئی ان ناجائز کالونیوں اور جھونپڑیوں میں لاکھوں افراد دہائیوں سے رہ رہے ہیں۔ ان سے اپنی ملکیت زمین واپس لینا موجودہ حکومت خاص طور پر وزیر ریلوے شیخ رشید احمد کے لئے بڑا چیلنج ہے جو اسے قبول کرنے کا عندیہ دے چکے ہیں۔ لیکن ماضی میں پاکستان ریلوے کو یہ شدید شکایت رہی ہے کہ صوبائی حکومتوں کے انتظامی ادارے ان سے تعاون نہیں کرتے۔ دوسری جانب جن لوگوں سے زمین چھڑانے سے کوشش کی جاتی ہے یا زمین واگزار کرائی جاتی ہے، وہ عدالتوں سے حکم امتناعی لے آتے ہیں۔ ان کے پاس ان کی زیر قبضہ زمین کی ملکیت کا کوئی ثبوت یا شواہد نہیں ہوتے، اس کے باوجود ان کو ریلیف دے دیا جاتا ہے۔
بااثر افراد کے علاوہ سرکاری اداروں نے بھی ریلوے حکام کی بے اعتناعی اور عدم توجہی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کی سینکڑوں ایکڑ اراضی پر قبضہ کر رکھا ہے۔ اب ان اداروں کے کہیں دفاتر، کہیں اسٹور اور کہیں اسکولز اور واٹر پمپ و ٹیوب ویل نصب ہیں۔ ریلوے حکام کے مطابق سرکاری اداروں کے پاس ان کی 541 ایکڑ اراضی، جبکہ دفاعی اداروں کے زیر قبضہ ان کی 251.23 ایکڑ اراضی ہے۔ رینجرز نے کچھ عرصہ قبل ریلوے کی کافی اراضی اسے واپس بھی کردی تھی۔ پاکستان ریلوے کی کارروائیوں کی بدولت اب بھی تین ہزار سے زائد قابضین کے خلاف مقدمات عدالتوں میں موجود ہیں اور کئی افراد اپنے جرم کی سزا کے طور پر جیل میں ہیں۔ لیکن جس طرح اس انتہائی اہم ایشو سے نمٹنا چاہئے تھا، ماضی میں ایسا نہیں ہوا۔
پاکستان ریلوے کے وفاقی وزیر شیخ رشید جہاں ریلوے کو ملک کا بڑا منافع بخش ادارہ بنانے کے لئے کوشاں ہیں، وہیں ان کی بڑی ترجیح قبضہ مافیا سے اپنے ادارے کی زمین کا قبضہ واپس لینا بھی ہے۔ اس سلسلے میں ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’میں نے ریلوے کی زمینوں پر ناجائز قبضے کا مسئلہ کابینہ میں اٹھایا ہے اور اس سلسلے میں مختلف تجاویز زیر غور ہیں۔ مافی میں یہ قبضہ چھڑانے کے لئے حکومتوں نے بھی ریلوے سے تعاون نہیں کیا۔ لڑائی جھگڑے بھی ہوئے ہیں۔ اگر ریلوے حکام نے کسی کو اپنی ملکیت اراضی سے بے دخل کیا تو وہ عدالت سے اس کے خلاف حکم امتناعی لے آیا، جس پر ریلوے حکام بے بس ہوکر اپنے گھر (دفتر) واپس آگئے۔ اب اس طرح کے احکامات کا سد باب کرنے کی بھی کوشش کی جا رہی ہے۔ میری تو تجویز ہے کہ صدارتی آرڈیننس کے ذریعے اس طرح کے اسٹے آرڈر پر تین ماہ کیلئے پابندی لگادی جائے‘‘۔ ایک سوال پر شیخ رشید احمد نے کہا کہ ’’پاکستان ریلوے کے اتنے زیادہ اثاثے اور جائیداد ہے کہ اگر اس کا درست طریقے سے استعمال کیا جائے تو نہ صرف ریلوے منافع بخش ادارہ بن جائے گا، بلکہ ان اثاثوں کی بنیاد پر ملکی معیشت کو بھی اس کے اپنے پاؤں پر کھڑا کیا جاسکتا ہے۔ دراصل اس ملک کے وسائل اور دولت پر ہمیشہ بااثر لوگ ہی قابض رہے ہیں، جن کے آگے قانون بھی بے بس ہوجاتا ہے۔ لیکن اب ایسا نہیں ہوگا۔ میں اپنی ٹیم بنارہا ہوں۔ اور انشاء اللہ قوم کو اچھی خبریں دیں گے‘‘۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment