سچے خوابوں کے سنہرے واقعات

ماں نے سیدنا ابراہیمؑ کو خواب میں دیکھا:
ایک معزز خاتون کی شادی اسماعیل نامی شخص سے ہوئی۔ اسماعیل بڑے جلیل القدر محدث اور عالم تھے۔ وہ امام مالکؒ کے شاگرد رشید تھے۔ اس مبارک شادی کا پھل میاں بیوی کو ایک نامی گرامی بچے کی صورت میں عطا کیا گیا۔ اس بچے کا نام انہوں نے محمد رکھا۔ شادی ہوئے ابھی چند سال ہی گزرے تھے کہ اسماعیل اپنی بیوی اور چھوٹے بچے کو داغ مفارقت دے گئے اور وراثت میں بڑی دولت چھوڑ گئے۔ والدہ انتہائی انہماک کے ساتھ اپنے بیٹے کی تربیت کرنے لگیں۔ ان کی خواہش تھی کہ ان کا بیٹا ایک جلیل القدر عالم دین بن کر افق عالم پر چمکے اور اپنے علم سے تاریک دنیا کو منور کرے۔
لیکن اس وقت ان کی حسرت ویاس کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا، جب ان کے بچے کی مستقبل میں ترقی اور ان کی تمناؤں کی تکمیل میں ایک بڑی رکاوٹ پیدا ہوگئی۔ بچپن ہی میں ان کا یہ بچہ اپنی بینائی کھو بیٹھا۔ اب نابینا ہونے کی وجہ سے یہ بچہ حصول تعلیم کیلئے علماء کے دروس میں شرکت سے معذور تھا اور حصول علم کیلئے دوسرے شہروں کا سفر بھی نہیں کر سکتا تھا۔
ماں کو یہ غم کھائے جا رہا تھا کہ آخر اس بچے کا کیا ہوگا؟ یہ عالم دین کس طرح بن سکے1 گا؟ بینائی کے بغیر علم کا حصول کیسے ممکن ہے؟
اس آرزو کے پورے ہونے کے لئے ان کے پاس بس ایک ہی ذریعہ تھا اور وہ ذریعہ دعا کا تھا۔ چنانچہ وہ پورے اخلاص اور سچی نیت کے ساتھ دربار الٰہی میں گڑ گڑا کر رونے لگیں اور رب کائنات کے حضور دست سوال دراز کرکے بچے کی بینائی بحال ہونے کی دعائیں مانگنے لگیں۔
خدا جانے وہ کب تک کتنے تسلسل کے ساتھ یہی دعا مانگتی رہیں کہ ایک رات انہوں نے عجیب و غریب خواب دیکھا۔ انہیں خواب میں سیدنا ابراہیمؑ نظر آئے۔ آپؑ کہہ رہے تھے:
’’بی بی! تیری دعاؤں کی کثرت کے سبب حق تعالیٰ نے تیرے بیٹے کی بینائی بحال کردی ہے‘‘۔
جب محمد کی والدہ نیند سے بیدار ہوئیں تو دیکھا کہ واقعی ان کے بیٹے کی بینائی بحال ہو چکی ہے، تو ان کی زبان سے رب تعالیٰ کے شکرانے کیلئے بے ساختہ یہ الفاظ نکلے:
’’بھلا کون بے قرار کی التجا قبول فرماتا ہے جب وہ اسے پکارتا ہے اور تکلیف دور کر دیتا ہے اور تمہیں زمین کا خلیفہ بناتا ہے، کیا خدا کے ساتھ کوئی اور معبود ہے؟ (ہر گز نہیں مگر) تم بہت کم نصیحت حاصل کرتے ہو‘‘۔ (النمل 62:27)
یہ عظیم خاتون جو مسلسل دعائیں مانگتی رہیں، امام المحدثین محمد بن اسماعیل بخاریؒ کی والدہ محترمہ تھیں۔ انہوں نے بیٹے کی بینائی لوٹ آنے کے بعد اس کی تعلیم و تربیت اس قدر محنت سے کی کہ خدا تعالیٰ نے ان کے بیٹے پر علم و عرفان کے دروازے کھول دیئے اور پھر آگے چل کر یہ بچہ ایک بہت بڑا محدث بنا اور اس نے قرآن کریم کے بعد دنیا کی صحیح ترین کتاب مرتب کی جو ’’صحیح البخاری‘‘ کے نام سے ساری دنیا میں مشہور ہے اور اس بچے کو لوگ امام بخاریؒ کے نام سے جانتے ہیں۔ ان کا پورا نام محمد بن اسماعیل بخاریؒ ہے۔ (سنہری کرنیں، ص: 215-214، مولانا عبد المالک مجاہد (طبع جدید)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment