عباس ثاقب
یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جس نے نوجوانی کے امنگوں بھرے دور میں اپنی جان خطرے میں ڈال دی۔ صرف اس لئے کہ وطن عزیز پاکستان کو دشمنوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔ جمال صاحب کراچی کے قدیم رہائشی ہیں اور ان دنوں گمنامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ عمر کے آخری حصے میں بصد اصرار اس بات پر آمادہ ہوئے کہ اپنی زندگی کے تہلکہ خیز گوشوں سے پردہ اٹھائیں۔ ان کا اصل نام کچھ اور ہے۔ بعض نا گزیر اسباب کی بنا پر انہیں ’’جمال‘‘ کا فرضی نام دیا گیا ہے۔ اس کہانی کو ڈرامائی شکل دینے کیلئے کچھ زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی۔ کیونکہ یہ حقیقی ایڈوینچر کسی سنسنی خیز ناول سے زیادہ دلچسپ ہے۔ جمال صاحب کی کہانی ان لوگوں کیلئے دعوتِ فکر ہے، جنہیں یہ ملک بغیر کسی جد و جہد اور محنت کے ملا اور انہوں نے اس کی قدر کرنے کے بجائے اسی سے شکایات شروع کر دیں۔ امید ہے کہ قسط وار پیش کی جانے والی یہ کہانی ’’امت‘‘ کے خوش نظر قارئین کی پذیرائی حاصل کرے گی۔ (ادارہ)
٭٭٭٭٭
سچن بھنڈاری کی گاڑی احاطے میں کھڑی دیکھ کر میں نے اطمینان کا سانس لیا اور ٹیکسی گیٹ کے سامنے کھڑی کر کے دھیرے سے ہارن بجایا۔ دوسرے ہارن پر بھی کوئی رد عمل سامنے نہ آیا تو میں نے ایک طویل وقفے تک دباؤ ڈالا۔ بالآخر میں نے دروازہ کھلتے دیکھا اور غصے سے بپھرے سچن کا چہرہ دکھائی دیا۔ تاہم گیٹ پر پہنچنے پر ٹیکسی کی ڈرائیونگ سیٹ پر مجھے بیٹھے دیکھا تو اس کا اشتعال زائل ہوگیا۔
وہ جیسے ہی گیٹ کا چھوٹا دروازہ کھول کر باہر آیا، میں نے ٹیکسی سے نکلتے ہوئے پُر جوش لہجے میں کہا ’’گڈ ایوننگ گُرو جی… سوری ہم تھوڑا لیٹ ہوگیا!‘‘۔
اس کے چہرے پر خوش گوار مسکراہٹ ابھری۔ ’’ابے روشن، تُو آگیا؟… میں تو بھول گیا تھا تجھے ٹریننگ کے لیے بلایا تھا۔ چل آجا، باہر ٹھنڈ ہے، اندر بیٹھتے ہیں‘‘۔
میں نے ٹیکسی کی عقبی نشست سے کھانے کی بڑی سی ٹوکری نکالی۔ اس نے پوچھا ’’اوئے یہ کیا لے آیا تُو؟‘‘۔
میں نے تابع دار لہجے میں کہا ’’باس پہلے لیسن کے لیے آیا ہے۔ خالی ہاتھ آنا کوئی اچھا لگتا؟ تھوڑا کھانے پینے کا سامان ہے، ایک دم گرما گرم !!‘‘۔
یہ سن کر وہ بالکل ہی پگھل گیا۔ ’’اوئے یہ تو نے کمال کر دیا۔ مجھے واقعی بھوک لگ رہی تھی اور باہر جانے کو دل نہیں کر رہا تھا‘‘۔
اس نے مجھے ساتھ لے کر گھر کی نشست گاہ کا رخ کیا۔ میں نے اسے اصرار کر کے اسے کھانے کی میز پر بٹھایا اور باورچی خانے سے برتن لاکر کھانا اس کے سامنے سجا دیا۔ وسیع ہال میں کبابوں کی اشتہا انگیز مہک پھیل گئی۔ میں نے اس کی آنکھوں میں چمک بڑھتی دیکھی۔ ’’ابے یہ تو بڑے میاں کباب والے سے لایا ہے ناں؟ دل جیت لیا تُو نے۔ لیکن ان کا اصل مزا تو بوتل کے ساتھ آئے گا‘‘۔
میں نے کہا ’’باس میں لاتو دے گا، پر کباب ٹھنڈا ہوگیا تو…‘‘۔
اس نے جوش بھرے لہجے میں کہا۔ ’’باہر جانے کی ضرورت نہیں۔ میرے پاس آج کا کوٹا موجود ہے… تم بیٹھو، میں ایک منٹ میں لے کر آتا ہوں‘‘۔
وہ جیسے ہی تیز تیز قدموں سے سیڑھیاں چڑھ کر زینے کے آخری سرے پر پہنچا، میں تیزی سے کونے میں رکھے ہوئے ٹیلی فون کی طرف بڑھا۔ اس پر موٹے قلم سے نمبر لکھا ہوا تھا۔ جبکہ پاس ہی ایک چھوٹی سی ڈائری موجود تھی۔ اس میں یقیناً سچن کے سسرال کا نمبر موجود ہوگا۔ ساتھ ایک پنسل بھی موجود تھی، لیکن میرے پاس فی الحال نمبر محفوظ کرنے کا وقت نہیں تھا۔ سچن کسی بھی لمحے وارد ہو سکتا تھا۔ چنانچہ میں اپنا اطمینان کر کے جلدی سے کھانے کی میز پر واپس آگیا۔
سچن انگریزی شراب کے ساتھ کبابوں پر ہاتھ صاف کرتا رہا، جبکہ میں نے کھانے میں ساتھ دینے پر اکتفا کیا۔ وہ میرے اندازے سے زیادہ پُرخور اور بلانوش نکلا۔
کھانا ختم ہونے تک اس کا ہاتھ نہ رکا اور جام پر جام چڑھانے کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ لیکن اس دوران میں نشہ بھی اپنا رنگ جماتا رہا، حتیٰ کہ وہ اتنا مدہوش ہو گیا کہ میری وہاں آمد کا ظاہری مقصد یعنی نشست و برخواست کی تربیت، دھرا کا دھرا رہ گیا۔
وہ اس قابل نہیں تھا کہ اپنے قدموں پر چل پاتا۔ بلکہ وہ تو بامعنی بات کرنے کے لائق بھی نہیں رہا تھا۔ مجھے اسے سہارا دے کر چھوڑنے کے لیے اس کی خواب گاہ میں جانا پڑا۔ وہ بستر پر لیٹنے میں مزاحمت کرتے ہوئے کچھ بڑبڑا رہا تھا۔ مجھے لگا وہ پیشاب کرنے کے لیے غسل خانے جانا چاہتا ہے۔ لیکن میں اس کے مزید نخرے مول لینے کے موڈ میں نہیں تھا۔ چنانچہ میں نے اس کی فرمائش سنی ان سنی کر کے اسے مسہری پر ڈالا اور نچلی منزل پر آگیا۔
میں نے سب سے پہلے اس کا فون نمبر نوٹ کیا اور پھر فون نمبروں والی ڈائری لے کر کھانے کی میز آگیا۔ اس کے سسر شری پاٹھک لال سونی کا فون نمبر سب سے اوپر درج تھا۔ میں نے باقی نمبروں پر نظر دوڑائی اور فوراً ہی مجھے اپنے مطلب کے دو افراد کے فون نظر آگئے۔ پہلا نمبر اس کے شعبے کے سربراہ اور دوسرا اس کے محکمے کے ایک اعلیٰ افسر کا تھا۔ میں نے یہ تینوں نمبر بھی اپنے پاس لکھ لیے۔
اگلی صبح سویرے ہی یہ سب نمبر اور اپنی رات کی پیش رفت لکھ کر اسلم کے ہاتھ افتخار صاحب کے پاس بھجوا دیئے اور ان سے شام کو ملاقات کا مقام بھی طے کر لیا۔ سارا دن ٹیکسی چلانے کے بعد میں شام ڈھلے دھیمی رفتار سے دھاراوی میں شری سدھی ونائیک مندر کے قریب واقع آٹو رکشا اسٹینڈکے پاس سے گزرا۔ مجھے دور ہی سے اسلم دکھائی دے گیا۔ مجھے فوراً معلوم ہوگیا کہ اس نے مجھے دیکھ لیا ہے، کیونکہ اس نے بالوں میں ہاتھ پھیرنے کے بہانے مجھے دائیں طرف والے روڈ پر جانے کا اشارہ کیا۔ کچھ ہی دیر میں مجھے اپنے عقب میں اس کے رکشے کی جھلک دکھائی دی۔ میں نے اسے اوور ٹیک کرنے کا موقع دیا اور اپنی رفتار مزید کم کر دی ۔
میں نے لگ بھگ ایک فرلانگ کا فاصلہ طے کیا ہوگا کہ اس کا رکشا سڑک کے کنارے کھڑا نظر آیا۔ اس نے اشارہ کر کے ٹیکسی روکی اور جلدی سے ایک بڑا سا براؤن لفافہ میری گود میں ڈال دیا۔ ’’افتخار صاحب نے مجھے شاباش اور مبارک باد تم تک پہنچانے کو کہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آج رات ہی اسے اپنے شکنجے میں جکڑ لو۔ تمہارا کیمرا اور باقی ہدایات گرما گرم تصاویر سمیت اس لفافے میں موجود ہیں۔ اگر تم چاہو تو رات کو میں سچن کے گھر کے اندر یا آس پاس رہ سکتا ہوں‘‘۔
میں نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔ ’’نہیں، میں نہیں سمجھتا کہ اس کی کوئی ضرورت ہے۔ اگر بعد میں ضرورت پڑی تو دیکھا جائے گا‘‘۔ اسلم نے میری رائے سے اتفاق کیا اور میں وہاں سے سیدھا اپنے گھر آگیا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭