پی ٹی آئی حکومت تحریک لبیک سے بگاڑنا نہیں چاہتی

امت رپورٹ
قادیانی مشیر عاطف میاں کو ہٹائے جانے کے حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت، تحریک لبیک سے بگاڑنا نہیں چاہتی۔ جبکہ مقتدر حلقوں نے بھی ٹی ایل پی کے سخت احتجاج سے قبل ہی قادیانی مشیر کو ہٹانے کا مشورہ دیا تھا۔ ادھر قریبی ساتھیوں کے علمائے کرام سے رابطوں کے بعد عمران خان نے نئے بحران میں پھنسنا مناسب نہ سمجھا۔ دوسری جانب بیرون ملک مقیم پارٹی کارکنان بھی عاطف میاں کی نامزدگی سے ناراض تھے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان کو انتخابات سے قبل مقتدر حلقوں کی جانب سے متنبہ کردیا گیا تھا کہ وہ کوئی بھی ایسا اقدام یا بیان دینے سے گریز کریں، جس سے انہیں تحریک لبیک پاکستان کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑے۔ اس کے بعد عمران خا ن کی جانب سے اب تک تحریک لبیک پاکستان سے بنا کر رکھنے کی پالیسی پر عمل کیا جارہا ہے۔ تاہم اس کے باوجود عمران خان اور حکومت کو اب تک دو بار سخت احتجاج کا سامناکرنا پڑچکا ہے۔ پہلی بار ٹی ایل پی کی جانب سے الیکشن کے فوری بعد دھاندلی کے حوالے سے احتجاج کیا گیا جس کے بعد ہالینڈ میں گستاخانہ خاکوں کو رکوانے کیلئے احتجاج کیا گیا تھا۔ تاہم اب براہ راست حکومت اور عمران خان کی ذاتی خواہش پر اقتصادی مشاورتی کونسل میں عاطف میاں قادیانی کو ماہر اکنامکس تعینات کیا گیا جس کے بعد وفاقی وزیر اطلاعات کی جانب سے اس پر احتجاج کرنے والوں کو شدت پسند بھی کہا گیا۔ اس کے بعد مذہبی حلقوں کی جانب سے احتجاج شروع کیا گیا جس پر عاطف میاں کو مستعفی ہونے کا حکم دیا گیا تھا، جس پر عاطف کے علاوہ دو دیگر بھی ممبران مستعفی ہوگئے۔
ذرائع نے بتایا کہ تحریک لبیک کی جانب سے اس حوالے سے مشاورت کی ہی جارہی تھی کہ عاطف میاں جیسے پاکستان مخالف قادیانی کو مشاورتی کونسل میں لگانا اور اس پر فخر یہ انداز میں بیانات جاری کرنے کے علاوہ مسلمانوں کو شدت پسند کہنے جیسے واقعے کے بعد ایسا احتجاج کیا جائے کہ حکومت کو ابتدائی مرحلے میں معلوم ہوجائے کہ وہ آئندہ غلطی کرنے سے قبل سو بار سوچے۔ یہ بات عمران خان کو معلوم ہوئی کہ تحریک لبیک سخت احتجاج پر غور کررہی ہے اور ان کے احتجاج میں اور ڈی چوک کے احتجاج میں فرق ہوگا، تو عمران خان کی جانب سے عاطف میاں کو مستعفی ہونے کا حکم دیا گیا۔ ذرائع کہنا ہے کہ اگر حکومت چند روز تک مزید عاطف میاں کو نہ ہٹاتی تو تحریک انصاف اور حکومت کو ملک بھر سے سخت احتجاج کا سامنا کرنا پڑتا جس میں عاطف میاں کے حوالے سے پھیلائے جانے والے جعلی پروپیگنڈے سمیت اس کی تعیناتی کے پیچھے مخفی ایجنڈے پربھی وضاحتیں دینا پڑسکتی تھیں۔ لاہور میں مقیم ایک عالم دین کا کہنا ہے کہ تحریک لبیک کے علاوہ بھی دیگر جماعتوں کی جانب سے تیاری کی جارہی تھی۔ جبکہ ملک بھر کے عام مسلمان جن کا کسی دینی تنظیم سے تعلق نہیں ہوتا، وہ بھی مذکورہ ایشو پر تحریک لبیک اور دیگر دینی تنطیموں کے شابہ بشانہ باہر نکل سکتے تھے۔ ادھر تحریک لبیک کے ایک رہنما کا کہنا ہے کہ حکومت کوئی بھی ہو اگر وہ غیر شرعی اقدامات اور خصوصاً ایسے کام کرے گی جو آئین پاکستان کے متفقہ قوانین کے بھی خلاف ہوں تو پھر اس حکومت تک اپنا احتجاج پہنچانا لازمی ہوتا ہے۔ جبکہ ایسا معاملہ کہ جہاں ہزاروں مسلمان ماہرین کی موجودگی میں ایک غیر مسلم اور وہ بھی قادیانی اکنامسٹ کو ملکی معاملات میں داخل کرنے جیسے واقعات سامنے آئیں تو لازمی سی بات ہے کہ ایسے موقع پر دینی تنظیموں کا فرض بنتا ہے کہ وہ عوام کی امید پر پورا اترتے ہوئے بھر پور احتجاج کریں۔ تحریک لبیک کے نزدیک احتجاج وہی ہوتا ہے جس میں مقصد مکمل کرکے ہی واپس گھر کو جایا جاتا ہے۔
ذرائع کا دعوی ہے کہ عمران خان کی جلد تمام مسالک کے علمائے کرام سے ملاقات کرائی جائے گی جس میں کسی بھی ایک تنظیم کے بجائے متفرق علمائے کرام کو شامل کیا جائے گا جس میں کسی بھی ایک تنطیم کی نمائندگی بھی مکمل طور پر نہیں ہو گی۔ تاکہ ان علمائے کرام کو کسی بھی ایسے ایشو پر حکومت اپنے ساتھ شامل اور ان کے ذریعے دینی طبقے میں بیانات کا سلسلہ جاری کرایا جا کراسکے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment