شہباز شریف کے داماد کا ٹاور کاروباری سرگرمیوں کے لئے بند

نجم الحسن عارف
سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے داماد اور ’’صاف پانی کمپنی کیس‘‘ میں نیب کو مطلوب علی عمران یوسف کے علی ٹاور میں آگ لگنے کے واقعے کے بعد ٹاور کو کاروباری اور پبلک سرگرمیوں کیلئے غیر معینہ مدت تک بند کردیا گیا۔ جبکہ 15 منزلہ ٹاور میں آتشزدگی کا معاملہ پُراسراریت اختیار کر گیا ہے۔ صوبائی حکومت کو تفتیشی رپورٹ کا ابھی انتظار ہے۔ تفتیش میں اس پہلو پر فوکس کیا جا رہا ہے کہ علی ٹاور کے تہہ خانے سے شروع ہونے والی آگ دیگر کئی منزلوں کو نظر انداز کرتے ہوئے چھٹے فلور میں کس طرح پہنچ گئی۔ جہاں پر صاف پانی کمپنی کا دفتر تھا۔ تاہم ابتدائی طور پر کہا جا رہا ہے کہ آگ شارٹ سرکٹ سے لگی جو آہستہ آہستہ چھٹے فلور پر جا پہنچی۔ واضح رہے نیب صاف پانی کیس میں سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو بارہا بلا چکی ہے۔ لیکن علی عمران یوسف ایک مرتبہ نیب کے سامنے پیش ہوئے اور اس کے بعد ملک سے بیرون ملک چلے گئے۔ ان کی غیر موجودگی کے دوران بھی نیب نے انہیں کئی مرتبہ بلایا ہے لیکن وہ واپس نہیں آئے ہیں۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنے سسر کی حکومت کا ناجائز فائدہ اٹھایا اور صاف پانی کمپنی پروجیکٹ سے انہیں قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ادائیگیاں کی گئیں۔ واضح رہے لاہور میں اس سے قبل بھی کئی اہم دفاتر میں آگ لگنے یا لگائے جانے کے واقعات پیش آ چکے ہیں۔ ان واقعات میں بھی مبینہ طور پر سرکاری ریکارڈ ہی زد میں رہا تھا۔ لیکن اب کی بار یہ آگ تو بظاہر ایک نجی ملکیت کی عالیشان عمارت میں لگی ہے۔ ذرائع کی جانب سے دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ عمارت میں ایک سرکاری ادارے ’’صاف پانی کمپنی‘‘ کا ہی ریکارڈ موجود تھا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ مبینہ طور پر وہی ریکارڈ ہے، جو نیب کو مطلوب تھا۔ ادھر علی ٹاور میں آگ لگنے کا واقعہ پیش آنے کے بعد شام پانچ بجے سے گیارہ بجے شب تک آگ بجھانے کا آپریشن جاری رہا۔ فائر بریگیڈ اور ریسکیو کے ذرائع کے مطابق آگ کا پھیلائو تو اس قدر نہ تھا لیکن آگ سے پھیلنے والے دھویں کی وجہ سے بلڈنگ کو کلیئر کرنے میں بہت وقت لگ گیا۔ آگ بجھنے کے بعد بھی علی ٹاور کو غیر معینہ مدت کیلئے کاروباری اور پبلک سرگرمیوں کے لئے بند کر دیا گیا ہے۔ عمارت میں مکڈونلڈ اور ورلڈ کال کے دفتر کو بھی جزوی طور پر نقصان پہنچا ہے۔ تاہم بلڈنگ میں آنے جانے کی اجازت کے بعد یہ سروسز بحال ہو جائیں گی۔
سرکاری ذرائع کے مطابق ابھی تک چونکہ تفتیشی رپورٹ موصول نہیں ہوئی ہے، اس لئے حکومت نہیں چاہتی کہ اس بارے میں کوئی دعویٰ کرے۔ ذرائع کے مطابق حکومت کیلئے یہ پہلو بھی اہم ہے کہ شارٹ سرکٹ اس نو تعمیر شدہ ٹاور میں ہی کیوں ہوا۔ جہاں صاف پانی کمپنی کا دفتر قائم تھا اور مبینہ طور پر اہم ریکارڈ تھا۔ واضح رہے علی ٹاور کے مالک اور سابق وزیراعلیٰ شہباز شریف کے داماد علی عمران یوسف کے حوالے سے نیب اس امر کی بھی انکوائری کر رہی ہے کہ صاف پانی کمپنی کے اعلیٰ ذمہ دار اکرام نوید، علی عمران یوسف کے فرنٹ مین کے طور پر کام کر رہے تھے۔ اس وجہ سے اکرام نوید کے زیر ملکیت ایک پراپرٹی ضبط بھی کر لی گئی ہے۔ ادھر یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ علی ٹاور میں پنجاب پاور کمپنی کا بھی دفتر موجود تھا۔ اس کا دفتر بھی مبینہ طور پر اسی آگ کی لپیٹ میں آیا ہے، جو تہہ خانے سے شروع ہو کر پراسرار طریقے سے چھٹے فلور پر جا کر ظاہر ہوئی۔ خیال رہے کہ علی ٹاور کی تعمیر حالیہ برسوں میں ہی ہوئی ہے اور اسے سیفٹی کے جدید تقاضوں کے مطابق مکمل کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی حادثے یا ہنگامی صورت حال میں اس سے محفوظ طریقے سے باہر نکلنے کے تمام بندوبست موجود ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو اس میں کئی افراد کی ہلاکت اور آگ سے شدید زخمی ہونے کا بھی امکان رد نہ کیا جا سکتا تھا۔
وزیر اطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان جنہوں نے علی ٹاور میں آگ لگنے کے فوری بعد موقع پر پہنچ کر تقریباً دو گھنٹے جائے وقوعہ پر گزارے۔ انہوں نے ابتدائی طور پر اسے آتشزدگی نہیں بتایا تھا بلکہ آتشزنی کا امکان ظاہر کیا تھا۔ ’’امت‘‘ نے ان سے اب تک کی تحقیقات اور تفتیش کے بارے میں سوال کیا تو ان کا کہنا تھا کہ چونکہ معاملہ اہم نوعیت کا ہے اس لئے وہ تفتیشی رپورٹ سامنے آنے سے پہلے احتیاط کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی طرف سے انکوائری کے حکم کے تحت جیسے ہی رپورٹ آئے گی اسے سامنے لایا جائے گا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا عام طور پر اب یہ معمول بن گیا ہے کہ آگ خواہ کسی نے لگائی ہو یا لگی ہو، سرکٹ شارٹ ہونے کا جواز پیش کر دیا جاتا ہے۔ اس بارے میں بھی یہی بات کہنے والے کہہ سکتے ہیں لیکن تفتیش سے سارے حقائق سامنے آجائیں گے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment