سدھارتھ شری واستو
امریکی ماہرین کا دعویٰ ہے کہ خلا کی چھان بین کرنے والی سابقہ ہبل دوربین کی جگہ تعینات کی جانے والی نئی خلائی دوربین کی جانچ کامیاب رہی ہے۔ انتہائی طاقتور عدسوں اور جدید ترین کیمروں کی مدد سے بنائی جانے والی یہ دوربین کہکشائوں میں نئی تلاش کی مہم میں خلائی مخلوق کو بھی ڈھونڈنے کا کام کرے گی، جس کیلئے ماہرین سب سے زیادہ پرامید ہیں۔ جے ڈبلیو ایس ٹی کہلائی جانے والی خلائی دوربین کے حوالے سے اپنی ایک رپورٹ میں لائیو سائنس نے بتایا ہے کہ ناسا کی جانب سے اس طاقت ور دوربین کو 2021ء میں خلا میں بھیجے جانے کا پروگرام طے ہے۔ ناسا کی جانب سے کہا گیا ہے کہ یہ دوربین ماضی میں جھانک کر ابتدائی کائنات کی اولین کہکشائوں کو دیکھے گی۔ واضح رہے کہ ہوائی اور چلی سمیت یورپی یونین کے کئی خلائی مشن بھی 2020ء تک خلا میں بھیجے جارہے ہیں جو امریکی دوربین کی طرز پر خلائی تحقیق اور خلائی مخلوق کی کھوج کی ذمہ داری ادا کریں گے۔ نئی دور بین کی کارکردگی کے بارے میں امریکی میڈیا نے بتایا ہے کہ جے ڈبلیو ایس ٹی دوربین خلا میں سائنسی و خلائی تحقیق کے ساتھ ساتھ یہاں پائے جانے والے کسی بھی قسم کے متحرک حیاتیاتی اجسام یا خلائی مخلوق کی تلاش کا کام بھی کرے گی اور اس سلسلہ میں چھے میٹر سے زائد قطر والی دور بین میں طلائی اسکرین نما آئینہ لگایا گیا ہے۔ اپنی نوعیت کی خاص اس نئی خلائی دوربین میں ایسے جدید ترین حساس کیمرے اور سینسرز بھی نصب کئے گئے ہیں جو خلائی مدار میں موجود کسی بھی قسم کے اجسام کی جانچ اور ان پر نگاہیں رکھنے اور تمام تفصیلات زمین پر ناسا مرکز منتقل کرنے کا کام کریں گے۔ اس دوربین کے کام کے بارے میں امریکی خلائی محققین کا کہنا ہے کہ 2021ء میں تعیناتی کے بعد خلا میں زمین سے کم از کم 15 لاکھ کلومیٹر کی دوری پر سورج کے گرد مخصوص رفتار سے چکر کاٹے گی اور اپنے ہر دور میں نت نئی کہکشائوں اور خلائی اجسام کی جانچ کرے گی۔ اس دوران تمام تصاویر اور ویڈیوز کو ناسا کے مرکز میں بھیجتی رہے گی جس کا تجزیہ کیا جائے گا۔ سائنسی محققین کو اس بارے میں یقین ہے کہ وہ زمین کے مدار میں پہنچنے والی خلائی مخلوق اور اڑن طشتریوں کی بھی تحقیق کرے گی۔ اس سلسلے میں امریکا کی واشنگٹن یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے ماہر فلکیات جوشوا ٹوسٹن اور ان کے ساتھی ماہرین کی ٹیم نے تصدیق کی ہے کہ 2021ء میں نئی دور بین ہمیں خلا میں زندگی کے آثار ڈھونڈنے کے بارے میں مدد دے گی۔ پروفیسر جوشوا کا دعویٰ ہے کہ حساس سینسرز اور جدید ترین کیمروں کی موجودگی میں یہ نئی دور بین اس قدر طاقت ور اور حساس ہے کہ درجنوں یا سینکڑوں نوری سال کی دورے پر موجود سیاروں کے اطراف ’’کیمیائی عدم توازن‘‘ کو باآسانی محسوس کرسکتی ہے اور اس کی تجزیاتی رپورٹ بنا کر زمین پر ناسا مرکز میں بھیج سکتی ہے۔ جے ڈبلیو ایس ٹی دور بین جب خلا میں سورج کے اطراف گردش کرے گی تو کسی بھی فاصلے پر موجود سیارے میں پائی جانے والی زندگی کو تلاش کرے گی جس کا بنیادی ماخذ آکسیجن ہو۔ جبکہ کئی سائنس دانوں کا دعویٰ ہے کہ محض آکسیجن کی تلاش زندگی کی ضمانت نہیں۔ کیونکہ ہوسکتا ہے کہ زمین پر انسانی زندگی کا ماخذ آکسیجن ہے تو دوسرے سیاروں پر پائی جانے والی زندگی آکسیجن کے بجائے کسی اور قسم کی گیس پر انحصار رکھتی ہو۔ جبکہ کئی سائنس دانوں کا نکتہ اعتراض ہے کہ اگر جس سیارے کی کھوج کی جارہی ہے اور اس کی فضا میں کیمیائی عدم توازن کا اصل سبب آکسیجن یا کوئی اور گیس نہیں بلکہ آتش فشانوں کا پھٹنا ہے تو اس سے ہم دھوکا کھا سکتے ہیں۔ لیکن ناسا ماہرین کا استدلال ہے کہ جے ڈبلیو ایس ٹی دور بین کی مدد سے کئے جانے والے متعدد اور متواتر تجزیوں سے با آسانی پتا چلایا جاسکتا ہے کہ متذکرہ کیمیائی عدم توازن آتش فشانی ہے یا زندگی کا سبب؟ ایک اہم سائنسی محقق کا کہنا ہے کہ کسی اور ستارے کے گرد سیارے کی موجودگی کا اندازہ اس طرح بھی لگایا جاسکتا ہے کہ جب کوئی سیارہ گردش کرتے ہوئے اپنے ستارے کے سامنے آجائے تو اس کی روشنی مدھم ہوجائے گی اور اسی وقت خلائی دوربین اس روشنی کی رنگت کا تجزیہ کرکے بتائے گی یہاں زندگی موجود ہوسکتی ہے۔ واشنگٹن یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے ماہر فلکیات جوشوا ٹوسٹن اور ان کے ساتھی ماہرین کی ٹیم کا استدلال ہے کہ ان کو یقین ہے کہ اگر یہ نئی دور بین تعیناتی کے بعد مشتری کی جسامت کے سیارے ’’ٹراپسٹ -ون‘‘ TRAPPIST-1 پر مرتکز کرے گی تو اُمید ہے کہ زندگی کے آثار ملیں گے۔ کیونکہ اس سیارے کے گرد مزید سات عدد سیارے گردش میں ہیں اوریہ سیارہ زمین سے ملتا جلتا ہے۔ جہاں اُمید کی جاتی ہے کہ پانی یا آکسیجن بھی موجود ہے۔ پروفیسر جوشوا کی ٹیم کی اس دلیل سے متعدد امریکی ماہرین فلکیات متفق ہیں جن میں ایک نام یونیورسٹی آف کورنل کے پروفیسر جوناتھن لونائیل کا ہے جو سمجھتے ہیں کہ ٹراپسٹ -ون ہی زندگی کا ایک مرکز ہے اور جے ڈبلیو ایس ٹی دوربین کی مدد سے خلائی مخلوق کا پتا چلایا جانا ممکنات میں سے ہے۔
٭٭٭٭٭