’’شکاگو بوائز‘‘ جیسا تجربہ پاکستان میں دہرانے کی کوششیں جاری

عارف انجم
اقتصادی مشاورتی کونسل سے قادیانی مشیر عاطف میاں کو ہٹانے جانے کے بعد کونسل کے دیگر دو ارکان عاصم اعجاز خواجہ اور عمران رسول ہی نے استعفے دے کر احتجاج ریکارڈ نہیں کرایا، بلکہ پاکستان اور بیرون ملک کے کئی نوجوان ماہرین معاشیات نے بھی عاطف میاں سے یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔ ان میں دو امریکی پروفیسر ڈینی روڈرک اور اوسٹن گولسبے بھی شامل ہیں جن کا تعلق بالترتیب ہاورڈ یونیوسٹی کے کینیڈی اسکول اور شکاگو یونیورسٹی سے ہے۔ مستعفی عمران رسول کا کہنا تھا کہ ’’سچ یہ ہے کہ اقتصادی مشاورتی کونسل میں اگر کوئی واحد اکیڈمک ایسا تھا جس کی پاکستان کو ضرورت تھی، تو وہ عاطف میاں تھے۔‘‘ ذرائع کا کہنا ہے کہ عاطف میاں کو ہٹانے کے بعد لاہور کی لمز یونیورسٹی میں بعض اساتذہ کو احتجاج پر آمادہ کرنے کی کوشش بھی کی گئی، لیکن یہ کامیاب نہ ہوسکی۔ عاطف میاں کے معاملے پر پاکستان کے بعض ’’نوجوان‘‘ ماہرین معاشیات میں جو یک جہتی سامنے آئی اور انہیں امریکہ کی یونیورسٹیوں سے جو حمایت ملی، اس نے 50 برس قبل رونما ہونے والی ماہرین معاشیات کے ایک ٹولے کی کارستانی کی یاد تازہ کر دی ہے۔ ان ماہرین معاشیات کو ’’شکاگو بوائز‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ 1970ء کے عشرے میں چلی کی معیشت کے ساتھ انہوں نے جو کچھ کیا، اسے کچھ لوگ ’’معجزہ‘‘ قرار دیتے ہیں اور کچھ اسے بہت بڑی امریکی سازش سمجھتے ہیں۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ان کی وجہ سے چلی میں بڑی تعداد میں لوگ بیروزگار ہوگئے تھے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بھی چلی کی طرح شکاگو بوائز جیسا تجربہ دہرانے کی کوشش کی گئی تھی۔ تاہم عاطف میاں کے استعفے کے بعد بھی اس سازش کے پیچھے چھپے لوگ ہتھیار ڈالنے کو تیار نہیں اور ان کی مہم جاری ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چلی کے شکاگو بوائز اور پاکستان کے نوجوان ماہرین معاشیات کے معاملے میں ایسی قدر مشترک ہے کہ تاریخ خود کو دہراتی محسوس ہوتی ہے۔
پاکستانی معیشت کے ساتھ کس تجربے کی کوشش ہو رہی ہے؟ چلی کی تاریخ سے اسے بخوبی سمجھا جاسکتا ہے۔ چلی کی معیشت کے حوالے سے جو کہانی عام طور پر بیان کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ 1973ء میں چلی کی معیشت اس وقت تباہ ہوچکی تھی جب جنرل پنوشے نے صدر آئندے کا تختہ الٹ دیا اور پھر امریکہ میں تعلیم حاصل کرنے والے نوجوان ماہرین معاشیات کو ملک کی حالت سنوارنے کیلئے بلایا گیا۔ انہیں امریکہ کے ممتاز معاشیات دانوں ملٹن فریڈ اور آرنلڈ ہاربرجر نے ’’شکاگو بوائز‘‘ کا نام دیا تھا۔ یہ نوجوان چلی پہنچے اور اقتصادی اصلاحات شروع کیں۔ پنشن کا بہت اچھا نظام متعارف کرایا۔ چلی کی معیشت کو زبوں حالی سے نکالا اور چلی کو لاطینی امریکہ کی کامیاب ترین معیشت بنا دیا۔ ان کی یہ کامیابی ’’چلی کا معجزہ‘‘ قرار دی جاتی ہے۔
تاہم حقیقت اتنی سادہ نہیں اور چلی میں جو ہوا، اس کے ’’معجزے‘‘ کے بجائے ’’عالمی سازش‘‘ ہونے کے ثبوت ان گنت ہیں۔ ان میں سب سے بڑا ثبوت 1999ء اور اس کے بعد ڈی کلاسفائیڈ ہونے والی امریکی محکمہ خارجہ کی دستاویزات ہیں۔ سرد جنگ کے دوران امریکہ کو سب سے بڑا خطرہ لاطینی امریکہ کے ممالک میں سوویت یونین کے اثر و رسوخ سے تھا۔ 1962ء میں سوویت یونین نے جب کیوبا میں میزائل نصب کیے تو امریکیوں کی انا ہی نہیں جان بھی خطرے میں پڑگئی۔ سوشل ازم کو کمیونزم سے قریب تر سمجھا جاتا ہے اور سرد جنگ کے دوران ہی لاطینی امریکہ کا ایک اور ملک چلی، سوشل ازم کو اپنائے ہوئے تھا۔ چلی کے نیشنل سیکورٹی آرکائیو میں موجود امریکی دستاویزات سے تصدیق ہوتی ہے کہ 1970ء میں امریکہ نے پہلے چلی کے سیاستدان سلواڈور آئندے Salvador Allende کو منتخب ہونے سے روکنے کی کوششیں کیں۔ اس کے باوجود جب وہ منتخب ہوگئے تو امریکی صدر نکسن نے حکم دیا کہ چلی کی معیشت کی ’’چیخیں نکال دی‘‘ جائیں۔ امریکہ کی رسوائے زمانہ انٹیلی جنس ایجنسی سی آئی اے نے چلی کے خلاف Project FUBELT شروع کیا۔ ہنری کسنجر اور سی آئی اے افسران میں ہونے والی گفتگو کی ایک دستاویز بھی چلی کے نیشنل آرکائیو کا حصہ بن چکی ہے۔ 1970ء سے 1973ء تک چلی کی معیشت کو تباہ کرنے کیلئے امریکی نیشنل سیکورٹی کونسل نے جو اسٹریٹجی پیپرز تیار کیے وہ بھی سامنے آچکے ہیں۔ تاہم پس پردہ ہونے والی یہ سرگرمیاں جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ امریکہ نے چلی کے صدر پر سنگین الزامات عائد کرنا شروع کردیئے۔ امریکہ نواز حکام دعویٰ کرنے لگے کہ صدر آئندے، چلی پر کمیونزم مسلط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اسی دوران جنرل پنوشے نے 1973ء میں حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ معیشت جو پہلے ہی خراب تھی 1975ء تک شدید بحران کا شکار ہوگئی۔ 1975ء سے شکاگو بوائز کا کام شروع ہوگیا۔ لیکن یہ شکاگو بوائز محض اتفاقاً چلی نہیں پہنچے تھے۔ 1973ء کی بغاوت سے بہت پہلے 1950ء کے عشرے میں ان کی تربیت امریکہ میں شروع ہوگئی تھی۔ ان میں سے بیشتر نے شکاگو یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی۔ گو کہ کئی دیگر ایم آئی ٹی دوسری یونیورسٹی کے طالب علم بھی تھے۔ تاہم شکاگو یونیورسٹی کی وجہ سے سب کو ہی ’’شکاگو بوائز‘‘ کا نام دیا گیا۔ ان کی تربیت کا سہرا ملٹن فریڈ مین کے سر باندھا جاتا ہے۔ 1960ء کے عشرے کے اختتام پر ان شکاگو بوائز نے El ladrillo (اینٹ) کے نام سے اقتصادی ترقی کا ایک پروگرام بھی تیار کر لیا تھا۔ چلی میں کام کرنے و الے شکاگو بوائز کی تعداد 20 سے زائد تھی۔ ان میں سرجیو ڈی کاسٹرو بھی ہیں جو چلی کے وزیر خزانہ رہے۔ شکاگو بوائز بنیادی طور پر سوشل ازم کے بجائے فری مارکیٹ کے حامی تھے۔ فری مارکیٹ وہ نظام تھا جو امریکہ چلی میں لانا چاہتا تھا۔ El ladrillo منصوبے کے تحت جب یہ نظام متعارف کرایا گیا تو قومی پیداوار گر گئی، بیروزگاری 20 فیصد تک جا پہنچی۔ لوگوں کی تنخواہیں 1970ء کی سطح سے بھی نیچے چلی گئیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ 1975ء سے 1989ء کے دوران امیر، امیر تر اور غریب، غریب تر ہوتا گیا۔ 1982ء میں شدید مالی بحران بھی آیا اور حکومت کو فری مارکیٹ کے اصولوں سے ہٹ کر بیل آئوٹ کا انتظام کرنا پڑا۔ نوبیل انعام یافتہ ماہر معاشیات امریتا کمار سین سمیت کئی ماہرین کاکہنا ہے کہ 1975ء سے 1982ء تک چلی میں بہت کم ترقی ہوئی۔ اصل ترقی 1982ء کے بعد شروع ہوئی جب حکومت نے اصلاحات کا رخ بدلا۔ تاہم اس ترقی پر بھی سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ جنرل پنوشے کے آمرانہ دور میں ٹریڈ یونین کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔ کسی قسم کا احتجاج ممکن نہیں تھا۔ خود شکاگو بوائز کے استادوں میں سے ایک آرنلڈ ہاربرجر نے شکاگو بوائز پر 2015ء میں سامنے آنے والی دستاویزی فلم میں اعتراف کیا کہ 1995ء تک چلی کوئی ’’ہیرا‘‘ نہیں تھا۔ گو کہ ان کا کہنا تھا کہ اب (یعنی2015(ء میں اسے ہیرا کہا جاسکتا ہے۔ لیکن اس سے محض چار برس قبل 2011ء میں چلی میں معاشی عدم مساوات اور مہنگی تعلیم کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے۔ آج چلی کی معیشت لاطینی امریکہ کے دوسرے ممالک سے بہتر تسلیم کی جاتی ہے۔ بیروزگاری بہت کم ہوچکی ہے۔ لیکن شکاگو بوائز کے کردار پر سوالات موجود ہیں۔ شکاگو بوائز نامی دستاویزی فلم بنانے والی کارولا فیونٹس کہتی ہیں کہ ’’درست کہ چلی کی معیشت بڑھ گئی لیکن کس کیلئے؟ چلی کے زیادہ تر عوام تعلیم، صحت اور سفر کے اخراجات اٹھانے کیلئے قرض میں ڈوبنے پر مجبور ہیں۔ محنت کشوں کو بہت کم حقوق حاصل ہیں۔ پچاس فیصد لوگوں کی آمدن 445 ڈالر (لگ بھگ 55 ہزار پاکستانی روپے) ہے جبکہ ایک فیصد امیر 9 لاکھ ڈالر (11کروڑ7 لاکھ پاکستانی روپے) کماتے ہیں۔ شکاگو بوائز سمجھتے ہیںکہ انہوں نے معیشت کو بہتر کر دیا، لیکن اگر اور پہلوئوں کو دیکھا جائے تو ہم دوسروں سے پیچھے رہ گئے ہیں۔‘‘
شکاگو بوائز کے برعکس امریکی یونیورسٹی میں تربیت پانے والے نوجوان پاکستانی ماہرین موقع ملنے پر پاکستان کی معیشت سنوارنے کیلئے کیا کر سکتے ہیں یہ دیکھنا باقی ہے۔ لیکن دونوں کے درمیان حد سے زیادہ اور حیرت انگیز مماثلت پائی جاتی ہے۔ چلی سے شکاگو پہنچ کر ماہر معاشیات بننے والے تقریباً تمام افراد نے چلی کی پونٹی فیکل کیتھولک یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی تھی۔ یہیں سے انہیں اسکالرشپ پر امریکہ بھیجا گیا تھا۔ اس طرح وہ ایک گروپ کی صورت میں کام کرتے رہے۔ پاکستان کی اقتصادی مشاورتی کونسل سے مستعفی ہونے یا ہٹائے جانے والے تینوں افراد عاطف میاں، عاصم خوجہ اور عمران رسول کا تعلق لاہور کی لمز یونیورسٹی میں قائم سینٹر فار اکنامک ریسرچ ان پاکستان(سرپ) سے ہے۔ ان میں سے دو افراد 2008ء میں بننے والے اس مرکز کے شریک بانی جبکہ تیسرے یعنی عمران رسول ریسرچ فیلو ہیں۔ اس مرکز کی ویب سائیٹ پر جو تعارف دیا گیا ہے اس کے مطابق سرپ اور ہاورڈ یونیورسٹی کے کیینڈی اسکول، شکاگو یونیورسٹی اور لمز سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے معروف ماہرین نے یہ مرکز قائم کیا ہے۔ مرکز کے قیام کا مقصد شواہد پر مبنی تحقیق ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سرپ اور مستعفی ارکان میں تعلق کے سبب ہی لمز میں بعض اساتذہ کو احتجاج پر آمادہ کرنے کی کوشش کی گئی تاہم یونیورسٹی کی انتظامیہ پہلے ہی گذشتہ کچھ عرصے کے واقعات سے پریشان ہے اور یہاں احتجاج کا فوری طور پر کوئی امکان نہیں۔ ادھر سرپ کی انتظامیہ بھی معاملات کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے متحرک ہے۔ سرپ کی ویب سائیٹ سے عاطف میاں کے پروفائل کا صحفہ ہٹا دیا گیا ہے۔ تاہم امریکی تربیت یافتہ ماہرین معاشیات کے ذریعے پاکستانی معیشت بہتر بنانے کی کوششیں ترک کرنے کا فیصلہ نہیں ہوا۔ عاطف میاں، عمران رسول اور عاصم خواجہ نے اپنے استعفوں کے اعلان کے ساتھ پاکستان کے لیے دستیاب ہونے کا ’’عزم‘‘ بھی ظاہر کیا ہے۔ عمران رسول نے کہا کہ پالیسی سازی میں بہتری کیلئے میں غیرجانبدارانہ اور شواہد پر مبنی مشورے دینے کیلئے تیار ہوں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ نام لیے بغیر شکاگو بوائز کے تجربے کو پاکستان میں دہرانے کی کوشش کی جائے گی اور جیسے شکاگو بوائز 1969ء میں توجہ نہ ملنے کے باوجود 1975ء میں رونما ہوگئے تھے، وہی صورتحال پاکستان میں بھی پیش آسکتی ہے۔
دوسری جانب ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے بعض ماہرین معاشیات کا کہنا تھا کہ اگر نوجوان اکنامسٹ پاکستان کی معیشت میں بہتری لانا چاہتے ہیں تو انہیں اس کا موقع ملنا چاہیے۔ پاکستانی یونیورسٹیوں میں ایک سے بڑھ کر ایک قابل اور ذہین لوگ موجود ہیں۔ ماہر معاشیات ڈاکٹر شاہدہ وزارت کے مطابق بعض لوگ یہ بھی سمجھ رہے ہیں کہ معیشت سازی میں پہلے سے موجود لوگوں کو نئے ماہرین قبول نہیں۔ ڈاکٹر شاہدہ وزارت کا یہ بھی کہنا تھاکہ وہ مستعفی ارکان کو زیادہ نہیں جانتیں۔ لیکن ماضی میں پاکستان کی معیشت کو کنٹرول کرنے والے بڑے ناموں نے ’’شکاگو بوائز‘‘ جیسا کردار ہی ادا کیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ چیف جسٹس نے حکم دیا تھا کہ دہری شہریت کے حامل افراد سرکاری عہدوں پر نہیں رہ سکتے، اس اصول کا اطلاق معاشی پالیسیاں بنانے والوں پر بھی لاگو کیا جائے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment