ام عاصم انتہائی خوش نصیب ماں:
ام عاصمؒ اپنے دور کی سب سے بڑھ کر بلند اخلاق اور معزز خاتون تھیں۔ آپ کی والدہ ام عمارہ ثقفیہ تھیں، جنہیں سیدنا عمرؓ نے اپنی بہو بنایا تھا، شادی کے بعد ان کے بطن سے عمر بن عبد العزیزؒ جیسا بلند بخت اور نیک دل بچہ پیدا ہوا جو بڑا ہوکر امیر المومنین کے منصب پر فائز ہوا۔ یہ عمر ثانی کہلائے۔ ام عاصم نے بچے کے دل میں بچپن ہی سے تقویٰ کا بیج بو دیا تھا۔
یہ ایک دفعہ گھوڑے سے گر گئے، انہیں سخت چوٹ آئی۔ والدہ پریشان ہوئی تو ان کے خاوند عاصم نے ام عاصم سے کہا: تم بڑی خوش نصیب ماں ہو۔ سنو امیر المومنین سیدنا عمر بن خطابؓ نے ایک رات خواب دیکھا کہ بنو امیہ کا ایک چشم و چراغ زخمی ہوگیا ہے۔ آپ نیند سے بیدار ہوئے اور فرمانے لگے: بنو امیہ کا یہ زخمی کون ہے؟ وہ عمر کی اولاد سے ہے، اس کا نام بھی عمر ہوگا۔ وہ عمر کے نقش قدم پر چلے گا اور روئے زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا۔
امیر المومنین سیدنا عمر بن خطابؓ تو شہید ہوگئے، لیکن ان کا یہ خواب خاندان میں زیر بحث آتا رہا۔ خاندان کے افراد اپنے بیٹوں کے چہروں پر زخم کی علامت دیکھتے رہے۔ عاصم فرماتے ہیں: یہ زخم جب میرے بیٹے کی پیشانی پر ہوا تو میری خوشی کی انتہا نہ رہی۔ میرے دل میں خیال آیا کہ یہ تو وہی زخم ہے جو امیر المومنین سیدنا عمر بن خطابؓ کو خواب میں دکھلایا گیا تھا۔
واقعی امیر المومنین عمر بن عبد العزیزؒ نے، جنہیں پیشانی پر زخم آیا تھا، مسند اقتدار پر براجمان ہوتے ہی معاشرے میں عدل و انصاف کا بول بالا کر دیا۔ (عہد تابعین کی جلیل القدر خواتین۔ احمد خلیل جمعہ اردو ترجمہ محمود احمد غضنفر، ص: 236, 235)