قسط نمبر 220
اردو ادب میں اچھے نادلوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے۔ خاص طور پر ایسے ناول بہت کمیاب ہیں، جو کسی ایک یا زیادہ حقیقی واقعات کو بنیاد بنا کر لکھے گئے ہوں۔ انگریزی ادب میں FACT اور Fiction کو ملا کر FACTION کی نئی طرز ایجاد کی گئی۔ جس میں حقیقت اور فسانہ اس طرح گھلے ملے ہوتے ہیں، جیسے پانی سے بھرے گلاس میں برف کی ڈلی۔ تاہم اردو ادب میں اب ایک ایسا ناول ضرور موجود ہے، جو ایسے معیارات پر پورا اترتا ہے اور دنیا بھر کے قارئین کے لئے پیش کیا جا سکتا ہے۔ ’’کئی چاند تھے سر آسمان‘‘ شمس الرحمان فاروقی کے بے مثال قلم کا شاہکار ہے۔ ایک سچی کہانی۔ جس کے گرد فسانے کا تانا بانا بُنا گیا ہے۔ یہ اس زوال یافتہ معاشرے کی کہانی ہے جب بہادر شاہ ظفر زندہ تھے۔ اور تیموری خاندان کی بادشاہت آخری سانس لے رہی تھی۔ اس دور کی دلی اور گردو نواح کے واقعات۔ سازشیں۔ مجلسیں۔ زبان و ادب۔ عورتوں کی بولیاں ٹھولیاں اور طرز معاشرت سب آنکھوں کے سامنے پھر جاتا ہے۔ قارئین کے ادبی ذوق کی آبیاری کے لئے ’’امت‘‘ اس ناول کے اہم حصے پیش کر رہا ہے۔ یہ ناول ہندوستان اور پاکستان میں بیک وقت شائع ہوا تھا۔ مصنف شمس الرحمان فاروقی ہندوستان میں رہتے ہیں۔ وہ ایک بڑے نقاد، شاعر اور بے مثال ناول نگار کی شہرت رکھتے ہیں۔ (ادارہ)
نواب مرزا کے دل کو اب ایک کی جگہ دو باتیں لگی ہوئی تھیں۔ ایک تو اپنی ماں کے لئے مستقل آرام اور سکون کی زندگی کا سامان کرنا اور دوسری فاطمہ کو اپنی دلہن بنانا۔ لیکن اس وقت دونوں ہی معاملوں میں کوئی پیش رفت نہ ہو رہی تھی۔ اس کی شاعری یقیناً شہرت پذیر تھی، لیکن ابھی اس سے روٹی پیدا کرنے کی کوئی سبیل سمجھ میں نہ آتی تھی۔ کبھی کبھی وہ سوچتا کہ ظہیر دہلوی سے کہہ دیکھیں، شاید قلعۂ معلیٰ میں اپنے لئے بھی کچھ نوکری کی صورت ہویدا ہو۔ لیکن سچ یہ ہے کہ اسے دیوانی و خان سامانی وغیرہ میں نوکری سے کچھ بھی دلچسپی نہ تھی۔ اس کا خیال، بلکہ عقیدہ تھا کہ شاعر کے لئے شاعری ہی بہت ہے، کیا پیشہ کیا مشغولیت، کیا مصروفیت، ہر حیثیت سے شاعری اکیلی کافی ہے۔ لیکن اس کی شاعری اس وقت تک تو مصحفی کی رباعی کے اول دو مصرعوں کی تصویر پیش کر رہی تھی کہ شاعری کے سوا کچھ کار دیں یا کار دنیا اس سے بن نہ پڑتا تھا۔ اور زندگی کی ضرورتیں اور فرض کے تقاضے اور جوان ہوتی ہوئی لطف حیات اور لذت تکمیل حیات کی امنگیں تھیں کہ اس کے ذہن اور ضمیر پر دستکیں دیئے جارہی تھیں۔ ان دنوں میں نواب مرزا کو یقین کامل تھا کہ ساری دہلی میں مجھ سے بڑھ کر بدنصیب اور دکھارا کوئی نہیں۔
ماں کے بارے میں نواب مرزا کو اتنا ضرور معلوم تھا کہ اگر وہ چاہیں تو کہیں مناسب جگہ نکاح یا کچھ انتظام کر سکتی ہیں۔ لیکن وہ یہ بھی دیکھتا تھا کہ اس کی اماں جان کے چہرے اور بدن ہی پر نہیں، ان کی روح میں بھی اب کچھ تھکن سی چھانے لگی تھی، جیسے اتنا بہت کچھ گنوانے کے بعد اب ان میں مزید حاصل کرنے کا حوصلہ نہ ہو۔ دوسری طرف، اس نے یہ بھی اڑتی اڑتی سن رکھی تھی کہ صاحب عالم مرزا فخرو بہادر کا کچھ میلان وزیر خانم کی جانب اب بھی ہے۔ ظہیر دہلوی نے ایک دن قلعے سے واپسی پر نواب مرزا کو بتایا کہ صاحب عالم و عالمیان مرزا فتح الملک بہادر نے دہلی کے مشہور مصور استاد غلام علی خان کو بلوا کر ان سے کہا ہے کہ ہمیں چھوٹی بیگم کی تصویر درکار ہے۔ میاں غلام علی خان اب بہت مسن ہو چکے تھے اور شبیہ سازی ترک کر چکے تھے۔ لیکن ان کی کارگاہ میں کئی ہونہار شاگرد شبیہ سازی اور نقشہ کشی کرتے تھے۔ استاد غلام علی خان پیرانہ سری کے باوجود دربار شاہی سے اب بھی وابستہ تھے اور ظل سبحانی کے یہاں ان کی بڑی آؤ بھگت تھی۔ وہ مصوری کے علاوہ خوش نویسی میں بھی مہارت تامہ رکھتے تھے اور علم مجلسی میں طاق اور بے حد خوش تقریر بھی تھے۔ ان کے والد استاد مظہر علی خان بھی حضرت اکبر شاہ ثانی عرش آرام گاہ کے عہد بابرکت کے بے حد نمودار مصور تھے۔ انہیں عمارتوں کی تصویر بنانے میں ید طولیٰ حاصل تھا۔ ان کے چھوٹے بیٹے، یعنی میاں غلام علی خان
کے چھوٹے بھائی استاد فیض علی خان اب کچھ تو رسم پدر کی پاسداری میں، اور کچھ بلحاظ غلبہ شریعت، شبیہ سازی ترک کرکے صرف عمارتوں کی تصویر بناتے تھے۔ ظہیر دہلوی نے نواب مرزا سے کہا کہ صاحب عالم نے چھوٹی بیگم کی تصویر کے واسطے استاد غلام علی خان کو منہ مانگا انعام دینے کا وعدہ کیا ہے۔
نواب مرزا کچھ سوچ میں پڑ گیا کہ یہ بات اماں جان کو بتاؤں یا ان سے فی الحال اسے پوشیدہ ہی رکھوں۔ اور ان کی تصویر میاں غلام علی خان کو کہاں سے مل جائے گی؟ اماں جان سے کچھ پوچھنا گویا بات ہی کو کھول دینا تھا، لہذا اس گتھی کو وہ فوراً نہ حل کر سکا تھا۔ حسن اتفاق کہ ایک دن بڑی خالہ کے یہاں باتوں باتوں میں اسے معلوم ہوگیا کہ اس کی ماں کی ایک تصویر عین جوانی کے دنوں میں بنی تھی اور وہ شاید اب کسی رئیس کے پاس تھی۔ بڑی خالہ نے یہ خبر کچھ بہت مسرت کے ساتھ نہیں، بلکہ ناخوشی کے لہجے میں بتائی تھی اور محل اس کا یہ تھا کہ تصویر کشی کو اللہ رسول نے اس لئے بھی منع کیا ہے کہ یہ بے پردگی کا سبب بنتی ہے۔ نواب مرزا کے جی میں آئی تھی کہ کسی طرح فاطمہ کی تصویر بنوا کر اپنے کلیجے میں رکھ لے، اور شبیہ سازی کی بات اس نے اسی غرض سے شروع بھی کی تھی۔ خیر وہ مقصود تو حاصل نہ ہونا تھا اور نہ ہوا، لیکن ماں کی تصویر کے بارے میں اسے ایک کام کی بات معلوم ہوگئی۔
استاد غلام علی خان اپنے وقت کے مانے ہوئے نقاش تو تھے ہی، انہیں تصویروں کے بارے میں معلومات بہت تھیں کہ کس کی تصویر کس نقاش نے کب بنائی اور اب وہ تصویر کہاں ہے۔ انہوں نے تھوڑی ہی کوشش کے بعد پتہ لگا لیا کہ وزیر خانم کی وہ پرانی تصویر تو کسی انگریز نے خریدلی تھی، لیکن اس کی ایک ناقص نقل پرانی اشیا کے ایک تاجر کے وہاں موجود ہے۔ میاں غلام علی خان نے اس تصویر کو بیس روپئے میں خرید کر اپنے شاگردوں کو دیا کہ صاحب شبیہ کی عمر میں کچھ اضافہ کرکے ایک جدید تصویر بنا دو، لیکن وہ دو چشمی ہو۔ یہ تصویر جلد ہی تیار ہوگئی۔ پھر میاں غلام علی خان نے اس کی نوک پلک درست کی۔ ان کی ہدایت کے مطابق شاگردوں نے صاحب تصویر کو عام مغل رواج تصویر کشی کے خلاف کچھ اس طرح پیش کیا تھا گویا اسے اس بات کا پورا علم ہے کہ ہماری تصویر کھنچ رہی ہے۔ شبیہ جب پوری طرح بن سنور چکی تو استاد کو خود بھیچک سے ہوگئے، اور ایک لحظے کے لئے ان کے ہاتھ میں ارتعاش پیدا ہوگیا کہ یہ تصویر تو زندہ آدمی سے زیادہ جاندار معلوم ہوتی تھی۔ کیا وزیر خانم کی روح کہیں سے آکر چند لمحوں کے لئے تصویر کے اندر حلول کر گئی تھی؟
میاں غلام علی خان کو جھرجھری آگئی۔ نہیں، کسی گوشت پوست کے انسان کو یہ تصرفات کہاں نصیب ہو سکتے ہیں۔ اور ان بی بی صاحب کو تو ہوا بھی نہ لگی ہوگی اس بات کی کہ ان کی شبیہ کھینچی جارہی ہے۔ پر یہ کیا اسرار ہے کہ صاحب شبیہ لگتا ہے بس اب تصویر سے باہر آکر… یہ رو نگاری نہیں جادو نگاری ہے اور جادو سارے کا سارا صاحب شبیہ میں ہے۔ چہرہ پرداز کو تو خبر بھی نہ ہوگی کہ اس کی متاع ہوش اور متاع فن دونوں ہی اس شبیہ نے اپنے کرلئے ہیں۔
استاد نے اپنے بوڑھے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے تصویر کو ایک ریشمی بستے میں رکھا اور صاحب عالم کے دربار کے وقت قلعہ مبارک میں حاضر ہوگئے۔ وہاں تصویر کی ایک جھلک دیکھ کر صاحب عالم و عالمیان نے اسے اپنے پاس ذاتی صندوقچے میں رکھ لیا اور میاں غلام علی خان کو دو سو روپئے انعام میں دلوائے۔
میرزا فتح الملک بہادر کو دربار ختم کرنے کی جلدی تھی، لیکن وہ ہر کام نہایت و ضعداری اور قاعدے کے مطابق کرتے تھے۔ بدلتے ہوئے دن رات کا بھی احساس انہیں دوسرے تمام شہزادوں اور سلاطین زادوں اور شہزادیوں سے زیادہ تھا۔ شاید بادشاہ ذی جاہ ہی ان سے زیادہ اس بات کا شعور رکھتے ہوں کہ ہماری سلطنت کا آفتاب اب دوبارہ کسی بھی افق پر بلند نہ ہوگا، اور اس کی وجہ بادشاہت کی اندرونی کمزوریوں ہی نہیں، بلکہ آئین جہانبانی اور اصول حکمرانی کی بساط پر ایک غیر وجود کی موجودگی تھی۔ انگریر نے آکر طور طریق، رسم و رواج، اصول و فروغ، تاریخ و افسانہ، سب کی شکل بدل دی تھی۔ انگریز نے اہل ہند کو باور کرانا شروع کر دیا تھا کہ اہل ہند جن باتوں کے دلدادہ ہیں اور جن خیالوں کی روشنی میں وہ اپنا جادہ حیات ڈھونڈتے ہیں، وہ سب باتیں اب غلط نہیں تو اذکار رفتہ ہو چکیں۔ لیکن میرزا فتح الملک بہادر کا عقیدہ تھا کہ حالات کے بدلنے میں ہی راز بھی مضمر ہے کہ انہیں اپنی مرضی کے موافق بدلا جا سکتا ہے یا خود کو اس لائق بنایا جا سکتا ہے کہ تبدیلی حال سے متمتع ہوا جا سکے۔ انہوں نے ایک انگریز کو نوکر رکھ کر انگریزی پڑھنی شروع کر دی تھی اور قلعے کے تمام رسومات کے ساتھ مذہب و شرع کے بھی تمام احکامات پر وہ کاربند رہتے تھے۔ بادشاہت تو میرزا دارا بخت ولی عہد اول کو ملنی تھی، لیکن میرزا فتح الملک کو تخت شاہی سے زیادہ اپنے اجداد کی روایات اور تاریخ عزیز تھی، لہذا انہوں نے اپنے لئے گوشوارہ عمل اور طریق معیشت وہی رکھا تھا، ان کی شاہزادگی جس کا تقاضا کرتی تھی۔ بادشاہ کوئی بھی ہو، بادشاہی سب کچھ نہیں۔ جن کے نیاگان میں بابر و اکبر ہوں، ان شاہزادوں کے بھی انداز اپنے تھے۔
دربار برخاست کرتے ہی میرزا فخرو اپنے دیوان خاص میں چلے گئے۔ چوبدار ان کا صندوقچہ اٹھائے ہوئے ان کے پیچھے پیچھے تھا، دو چوبدار ان کے آگے چل رہے تھے۔ ایوان میں پہنچتے ہی میرزا فخرو نے تخلیہ کا اشارہ کیا اور صندوقچہ کھول کر تصویر نکالی تو وہ ان کے ہاتھ سے چھوٹتے چھوٹتے بچی۔ لگتا تھا تصویر اپنی آنکھ یا ابرو سے کوئی اشارہ کرنے والی ہے۔ لیکن اس کی ادا میں کوئی رکاکت یا سوقیانہ پن نہ تھا۔ عمر یہی کوئی میری ہی عمر، یا شاید ایک آدھ برس کم یا زیادہ ہو۔ مگر یہاں عمروں کی موافقت یا تفاوت کا کیا ذکر تھا۔ اہم بات تو یہ تھی کہ یہ چہرہ اور یہ گردن، یہ ہاتھ اور یہ شانے، کسی زندگی بھری ہوئی خواہش کے سحر سے زندہ معلوم ہوتے تھے۔ یہ تصویر نہ تھی صاحب تصویر کے رواں دواں لہو سے شاداب حسن کی بہتی ہوئی جدول تھی، جس سے سیراب ہونے اور جس میں ڈوب جانے کا دل چاہتا تھا۔ (جاری ہے)