سدھارتھ شری واستو
بھارت کی معاشی مسائل میں گھری مسلح افواج سے ڈیڑھ لاکھ اہلکاروں کو برطرف کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ مودی سرکار کے پاس فوجیوں کو ادائیگی کیلئے پیسے نہیں، جس کے باعث افرادی قوت سے جان چھڑانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ چھانٹی کا عمل مکمل ہونے کے بعد مزید فوجی ٹھکانے لگانے کیلئے انڈین آرمی کی اعلیٰ سطح کی کمیٹی پھر سر جوڑ کر بیٹھے گی۔ بھارتی حکومت کو امید ہے کہ اس عمل سے 25 ہزار کروڑ روپے بچائے جا سکتے ہیں، جبکہ دفاعی ماہرین نے معاملے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
مسلح بھارتی افواج کی اعلیٰ کمان نے کم پیشہ ور اور بڑھتے ہوئے اخراجات سے متاثر ہوکر ڈیڑھ لاکھ فوجیوں کو ملازمتوں سے فارغ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ڈائریکٹوریٹس آفس کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ نومبر 2018ء تک آرمی چیف کے دستخطوں سے ابتدائی مرحلہ میں پچاس ہزار فوجیوں کو فارغ خطی لکھ دی جائے گی اور اگلے دو سالوں میں مزید فوجیوں اور جونیئر کمیشنڈ آفیسرز کو ملازمتوں سے فارغ کردیا جائے گا۔ نکالے جانے والے فوجیوں کے بارے میں دہلی میں براجمان بھارتی دفاعی تجزیہ نگار راہول سنگھ نے تصدیق کی ہے کہ اس ضمن میں گیارہ رکنی کمیٹی کی جانب سے خاموشی سے ایک سمری تیار کی جارہی ہے جس کے نگراں لیفٹیننٹ جنرل جسویندر سنگھ سندھو ہیں۔ متعد بھارتی دفاعی تجزیہ نگاروں کا دعویٰ ہے کہ بھارتی مسلح افواج کے مختلف شعبوں میں کی جانے والی ڈائون سائزنگ کا بنیادی سبب ’’معاشی مسائل‘‘ ہیں کیوں کہ مودی سرکار کے پاس فوجیوں کو ادائیگیوں کیلئے رقم نہیں ہے، جس کی وجہ سے انہوں نے زیادہ افرادی قوت ہونے کا بہانہ بنا کر چھانٹیوں کا فیصلہ کیا۔ اس بارے میں ناردرن کمانڈ کے سابق سربراہ ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل بی ایس جسوال کا دعویٰ ہے کہ چھانٹیوں کا عمل درست نہیں، جب مسلح بھارتی افواج کیلئے حکومت اور متعلقہ ادارے متفق ہیں کہ اس کو جدید ترین ہتھیاروں اور حساس ترین آلات سے لیس کیا جائے گا تو یقیناً ہمیں اس ٹیکنالوجی کو سمجھنے اور ہتھیاروں کو استعمال کرنے کیلئے ہر سطح پر افرادی قوت کی ضرورت پڑے گی۔ انڈین آرمی کے ایکس سروس مین لیفٹیننٹ جنرل جسوال کا مزید کہنا ہے کہ ہر سطح پر فوجیوں اور افسران کی ڈیوٹیز اور ضرورت کا اندازہ کیا جانا چاہئے، صرف یہ کہہ دینا کہ شعبوں میں افراد زیادہ بھرتی ہوگئے ہیں کافی نہیں ہوتا کیونکہ افواج کے تمام شعبہ جات میں بھرتیاں ایک منظم انداز میں کی جاتی ہیں۔ افواج کے ہر سطح پر افسران اور نچلے رینک کے سپاہیوں تک کے بارے میں علم ہوتا ہے کہ ڈیپارٹمنٹ میں ان کی ضرورت ہے یا نہیں۔ بھارتی افواج سے ابتدائی مرحلہ پر فارغ کئے جانے والے سپاہیوں اور نچلے درجہ کے افسران کا تعلق جنرل ڈائریکٹوریٹس ہیڈ کوارٹر، لاجسٹک اینڈ سپورٹ یونٹس، کمیونیکیشن اسٹیبلشمنٹ، ری پیر فیسیلٹی سمیت ایڈمنسٹریشن سے بتایا گیا ہے، جن کی فراغت کے بعد 2022ء میں یہی کمیٹی ایک بار پھر مختلف شعبوں میں بھارتی افواج کی چھانٹیوں کے حوالہ سے معلومات حاصل کرے گی۔ اپنی ایک رپورٹ میں تلنگانہ ٹوڈے نے بتایا ہے کہ اعلیٰ عسکری افسران نے فوج سے ڈیڑھ لاکھ سپاہیوں اور افسران کی فراغت کے معاملہ پر کہا ہے کہ حکومت چاہتی ہے کہ ان چھانٹیوں سے بہت بڑی رقم بچائی جاسکتی ہے اور دسمبر 2019ء میں حکومت اور وزارت دفاع نے کم از کم پچیس ہزار کروڑ روپے بچانے کا اندازہ لگایا ہے۔ بھارتی تجزیہ نگار پون کمار کا مسلح افواج میں سے ڈیڑھ لاکھ سپاہیوں اور افسران کی فارغ کرنے کی خبر پر کہتے ہیں کہ یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کیونکہ درجنوں یونٹس اور کم از کم تین کمانڈز میں سپاہیوں اور افسران کی واضح قلت ہے اور حال ہی میں افواج کی ایک خصوصی شیکت کار کمیٹی (Shekatkar committee) نے تو ماضی میں فارغ اور ریٹائرڈ کردیئے جانے والے ستاون ہزار سپاہیوں اور افسران کو واپس فورسز میں بلوانے کی تیاری کی ہوئی ہے۔ اپنے فیصلہ کا دفاع کرتے ہوئے شیکت کار کمیٹی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ ڈی بی شیکت کار کا استدلال ہے کہ بھارتی افواج میں افسران اور سپاہیوں کی سطح پر افرادی قوت کی واضح کمی ہے اور بالخصوص جدید ترین اور حساس آلات اور ٹیکنالوجی اور ہتھیاروں کو چلانے کیلئے ہمیں مزید افسران اور اہلکاروں کی ضرورت ہے جس کیلئے دو سالوں میں ریٹائرڈ کردیئے جانے والے تمام جونیئر کمیشنڈ افسران اور پیشہ ور فوجیوں کو واپس افواج میں بھیجنا بہت ضروری ہے۔ کئی بھارتی تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ کم از کم اس منظر نامہ میں بھارتی افواج کی ڈائون سائزنگ کا یہ فیصلہ سمجھنا کافی مشکل ہے۔ پون کمار جو بھارتی افواج کے متعلق سیر حاصل تجزیات بھی کرتے رہے ہیں، کا کہنا ہے کہ کم از کم دو سینئر عسکری کمانڈرز نے اس بارے میں ان کو حکومتی پالیسی کے تحت کیا جانے والا فیصلہ قرار دیا ہے حالانکہ بظاہر اس کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔ بھارتی جریدے ہندوستان ٹائمز کی بریکنگ اسٹوری کے متعلق مزید پتا چلا ہے کہ ڈیڑھ لاکھ سپاہیوں اور افسران کو فارغ اس لئے کیا جارہا ہے کہ متعدد یونٹس اور شعبہ جات افرادی قوت کے سبب بھاری بھرکم ہوچکے ہیں اور ان کی فراغت سے افواج کی حربی صلاحیت اور حملوں کی قوت پر کوئی منفی اثرات مرتب نہیں ہوں گے، جبکہ ڈیڑھ لاکھ فوجیوں اور افسران کی چھانٹی سے حکومت کو بھاری تنخواہیں بھی بچ جائیں گی جن کو کٹنگ ایج ٹیکنالوجی اور حساس ہتھیاروں کی خریداری پر خرچ کیا جاسکتا ہے۔ 21 جون کو بھارتی مسلح افواج کی خاص چھانٹی کمیٹی نے ایک مراسلہ میں تسلیم کیا تھا کہ بارہ لاکھ ریگولر آرمی میں سے اگر دو ڈھائی لاکھ افسران اور اہلکاروں کو چھانٹ بھی دیا جائے تو اس سے کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوگا کیونکہ مخالف پاکستان کے پاس ساڑھے پانچ لاکھ افواج کا کسی بھی مرحلہ اور کسی بھی قسم کی جنگ میں مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ بھارتی مسلح افواج کیلئے سیکریٹری کے فرائض بھی انجام دینے والے لیفٹیننٹ جنرل جس ویندر سنگھ سندھو نے ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ فوجیوں کی فراغت کی اپنی کمیٹی کی جانب سے ’’پریزنٹیشن‘‘ بنا لی ہے، جس کو انڈین آرمی چیف جنرل پبن راوت کو دکھایا جائے گا اور ان سے کہا جائے گا کہ ڈیڑھ لاکھ فوجیوں کی چھانٹی کے معاملہ پر حکومت کو گرین سگنل جاری کردیا جائے۔ بھارتی افواج کی چھانٹی کمیٹی نے اپنی سفارشات میں لکھا ہے کہ متعدد شعبہ جات ایسے ہیں کہ جہاں ٹیکنالوجی اور حساس آلا ت کے بجائے افرادی قوت جمع کی گئی ہے حالانکہ کم فوجیوں کے ساتھ ان کو چلایا جاسکتا ہے اور ٹیکنالوجی سمیت ہتھیاروں اور حساس آلات فراہم کئے جانے چاہئیں۔ بھارتی جریدے ہندوستان ٹائمز نے بتایا ہے کہ اس وقت ایک مراسلاتی حکم نامہ کے تحت ہر سطح پر روزانہ کی بنیاد پر افواج کے اخراجات کا تخمینہ لگایا اور جی ایچ کیو کو بھیجا جارہا ہے جس سے بھارتی حکومت اور وزارت دفاع کو اس بات کو سمجھنے میں آسانی ہوگی کہ بھارتی افواج کے تمام شعبہ جات میں کس قدر اخراجات ضروری ہیں اور ڈائون سائزنگ کے نتیجہ میں کیا بھارتی حکومت کو معقول رقم پس انداز ہوسکتی ہے، جس سے نت نئے طیارے اور ہتھیار اور حساس آلات کی خریداری کی جاسکے ۔