شپنگ کمپنیوں کیخلاف تحقیقات کرنے والے افسران میں پھوٹ

عمران خان
محکمہ کسٹم کے ماڈل کسٹم کلکٹوریٹ اپریزمنٹ ایسٹ میں افسران کے درمیان مفادات کی جنگ شروع ہوگئی۔ اپزیزمنٹ ایسٹ کے آر اینڈ ڈی شعبے کے افسران نے اپنے ہی افسران کے احکامات کو غیر قانونی قرار دے کر تحقیقات شروع کردی ہیں۔ اہم ذرائع کے بقول کسٹم اپریزمنٹ ایسٹ میں شپنگ کمپنیوں کے خلاف تحقیقات کے معاملے پر کسٹم افسران گروپ بندی کا شکار ہوگئے ہیں۔ مقامی کمپنیوں کی جانب سے بیرون ملک سے منگوائے گئے سامان پر شپنگ کمپنیوں اور ٹرمنل انتظامیہ پر زائد وصولیوں کے الزامات پر تحقیقات کرنے والے کسٹم افسران کے اپنے خلاف تحقیقات شروع ہوگئی ہیں۔ جبکہ کسٹم افسران کے ایک دوسرے گروپ نے شپنگ کمپنیوں اور ٹرمنل انتظامیہ پر اضافی وصولیوں کے الزامات عائد کرنے والی مقامی کمپنیوں کے خلاف بھی تحقیقات شروع کردی ہیں۔ذرائع کے بقول مقامی کمپنیوں، ٹرمنل انتظامیہ اور شپنگ کمپنیوں کے آپس کے تنازعات سے کسٹم افسران بھرپور مالی فائدے اٹھا رہے ہیں ۔
ذرائع کے بقول یہ معاملات اس وقت شروع ہوئے جب دو ماہ قبل بیرون ملک سے سامان منگوانے والی کمپنیوں کی جانب سے کسٹم حکام کو اور مقامی تھانے میں 13درخواستیں درج کرائی گئیں کہ ان کے بیرون ملک سے منگوائے گئے کھلونوں کی کھیپ پر شپنگ کمپنیوں اور ٹرمنل انتظامیہ کی جانب سے غیر قانونی اور زائد فیس وصول کی جا رہی ہے جس پر ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔ کمپنیوں کا موقف تھا کہ ان کے بیرون ملک سے منگوائے گئے سامان میں ٹیکس چوری کے الزامات پر کسٹم حکام نے انکوائری شروع کی تھی۔ تاہم بعد ازاں انہیں کلیئر قرا ر دے دیا گیا تھا اور کسٹم حکام نے ہی انہیں ’’ڈیلے اینڈ ڈیٹینشن سرٹیفکیٹ‘‘ بھی جاری کئے جس کے مطابق جتنا عرصہ ان کمپنیوں کے کنٹینرز ٹرمنل پر رکے رہے اس کے عوض ان سے تاخیر کی مد میں اضافی فیس وصولی یعنی ڈیمرج فیس وصول نہیں کی جاسکتی۔ کیونکہ یہ کنٹینر کمپنیوں کی جانب سے جان بوجھ کر نہیں روکے گئے تھے بلکہ کسٹم افسران نے تحقیقات کیلئے روک کر رکھے تھے۔ کمپنیوں کی جانب سے جہاز راں کمپنیوں اور ٹرمنل انتظامیہ کے خلاف کارروائی کرکے ان پر عائد کئے جانے والے 100 فیصد ڈیمرج اور ڈیٹنشن چارجز معاف کرنے کی درخواستیں بھی کی گئیں جس کیلئے موقف اختیار کیا گیا کہ اضافی چارجز کا کوئی معاہدہ نہیں کیا گیا تھا۔ اگر اضافی چارجز معاف نہیں کیے گئے تو ان کے خلاف کسٹمز ایکٹ کے سیکشن 156(1) 7A کے تحت قانونی کارروائی کی جائے گی اور لائسنس کی تنسیخ کیلئے پروسس میں تیزی لائی جائے گی۔ ذرائع کے مطابق ان درخواستوں پر متعدد شپنگ کمپنیوں کے لائسنس منسوخ کرنے کیلئے ماڈل کسٹم کلکٹریٹ پریونٹوکے افسران نے باقاعدہ تحقیقات شروع کیں۔ اسسٹنٹ کلکٹر لائسنسنگ حمیر خان نے درآمدی تاجروں کو خطوط لکھ کر مال کے جی ڈی نمبرز طلب کیے ہیں جو ان کمپنیوں نے بلا ک کر رکھے تھے۔
انہی تحقیقات کیلئے کسٹم افسران کو معلومات دی گئیں کہ یہ شپنگ کمپنیاں اور ان کا عملہ درآمدکنندگان سے معاملات طے کر کے چین سے پاکستان تک درآمدی سامان بہت کم نرخ پر لانے پر رضامند کرتا ہے۔ تاہم جب وہ اپنا مال چین میں شپنگ کمپنیوں کے حوالے کرتے ہیں تو وہ پاکستان میں تجارتی مال ان کے حوالے نہیں کرتیں۔ بعد ازاں انہی کنٹینرز پر اضافی ڈیمرج اور ڈیٹنشن چارچز مانگے جاتے ہیں۔ ایس آر 1220 (2015) میں واضح طور پر تحریر کیا گیا ہے کہ شپنگ کمپنیاں اضافی ڈیمرج اور ڈیٹنشن چارجز کا مطالبہ نہیں کر سکتیں۔ کسٹمز ایکٹ 1969 ا سیکشن 14A بھی اس بات کی تائید کرتا ہے کہ شپنگ کمپنیاں اضافی ڈیمرج اور ڈیٹنشن چارجز کا مطالبہ نہیں کر سکتیں۔ ذرائع نے بتایا کہ بعض درآمد کنندگان کی شکایت ہے کہ انہوں نے چین میں اپنا سامان امانت کے طور پر دیا تاکہ کراچی پہنچایا جائے۔ سمندری کرایہ تو معاہدے کے تحت بہت پہلے ادا کیا جا چکا تھا، تاہم بار بار یقین دہانی کرائے جانے اور کراچی میں دفاتر کے چکر لگانے پر بھی مال ریلیز نہیں کیا گیا۔
ذرائع کے مطابق ایک جانب مقامی تاجروں کی شکایات پر شپنگ کمپنیوں اور ٹرمنل انتظامیہ کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا گیا تو شپنگ کمپنیوں اور ٹرمنل انتظامیہ سے ہمدردی رکھنے والے افسران نے مقامی تاجروں کے خلاف تحقیقات شروع کردیں جس کے نتیجے میں اپریزمنٹ ایسٹ میں بد انتظامی اور دھڑے بندی پیدا ہوگئی۔ ذرائع کے بقول آر اینڈ ڈی کے بعض افسران نے کلکٹوریٹ کے اعلیٰ افسران کے خلاف بھی رپورٹ تیار کرنا شروع کردی ہے۔ جبکہ اس معاملے میں کلکٹوریٹ ایسٹ اور چیف کلکٹوریٹ کسٹم سائوتھ آفس کے درمیان بھی رنجش پیدا ہوگئی ہے۔ تاہم صورتحال میں کسٹم کے بعض افسران نے ذاتی فائدے بٹورنا شروع کردئے ہیں۔
ذرائع کے مطابق پاکستان کسٹم اپریزمنٹ ایسٹ کے شعبے آر اینڈ ڈی کے افسر نے اپنی ٹیم کے ہمراہ مقامی تاجروں کی جانب سے بیرون ملک سے منگوائے گئے سامان کی آڑ میں قومی خزانے کو کروڑوں کا نقصان پہنچانے والی دو کمپنیوں کے خلاف تحقیقات شروع کیں اور پاکستان انٹرنیشنل کنٹینر ٹرمنل (پی آئی سی ٹی) پر ایک کمپنی کی 4 ، جبکہ دوسری کمپنی کی7 کنسائنمنٹس روک لیں، جس کے بعد ان 13 کنسائنمنٹس کی مکمل جانچ پڑتال شروع کی اور بعد ازا ں کسٹم ایسٹ آر اینڈ ڈی نے تمام کنسائنمنٹس کی علیحدہ علیحدہ کنٹروریشن رپورٹ ایڈجیورکیشن کو ارسال کر دیں، جس پر کسٹم ایڈجیورکیشن نے ساتھ میں آرڈر اینڈ اوریجنل (او این او) جاری کردیا ،جس میں دونوں کمپنیوں پر جرمانے عائد کئے گئے۔ تاہم کسٹم کے ہی افسرا ن نے ان مقامی تاجروں کو فیس معافی کیلئے ڈیلے اینڈ ڈیٹینشن سرٹفیکیٹ جاری کئے جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کمپنیوں پر جرم ثابت نہیں ہوا اور ان کا سامان بغیر کسی اضافی ادائیگی کے کلیئر کردیا جائے جس کے بعد ان کمپنیوں نے اپنا سامان ٹرمنل سے اٹھالیا۔ ذرائع کے بقول کسٹم افسران میں موجود بعض عناصر شپنگ کمپنیوں اور ٹرمنل انتظامیہ کے کہنے پر اس کوشش میں مصروف ہیں کہ کسی طرح سے مقامی تاجروں کے خلاف کارروائی کو آگے بڑھایا جائے اور ان پر جرمانے بھی عائد کئے جائیں اور شپنگ کمپنیاں اور ٹرمنل انتظامیہ کروڑوں روپے کی اضافی اور زائد وصولیاں مقامی تاجروں سے جاری رکھ سکیں۔ اس کے عوض ان افسران کو پرکشش آمدنی کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ ذرائع کے بقول ان تمام معاملا ت کی اطلاعات ایف بی آر چیئرمین آفس اسلام آباد اور ممبر کسٹم آفس تک بھی پہنچ چکی ہیں، جس پر اپریزمنٹ ایسٹ کے تاجروں سے اضافی وصولیوں کے ذریعے مقامی معیشت کو کمزور کرنے کی کوشش کرنے والے کسٹم اپریزمنٹ ایسٹ آر اینڈ ڈی کی ٹیم کو تبدیل کرنے پر بھی غور کیا جا رہا ہے کیونکہ مالی مفادات کی جنگ اس قدر بڑھ چکی ہے کہ کسٹم اپریزمنٹ ایسٹ آر اینڈ ڈی نے اپنی رپورٹ میں اعلیٰ افسر سے اپنے ہی کسٹم افسران کے خلاف قانونی کارروائی کی درخواست کی ہے۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ تمام صورتحال محکمہ کسٹم میں بد انتظامی اور بد نظمی کی وجہ بن رہی ہے جس کو جلد از جلد ختم کیا جانا بہت ضروری ہے ۔

Comments (0)
Add Comment