سی ڈی اے کی 40کھرب مالیت کی اراضی پر بااثر مافیا قابض

مرزا عبدالقدوس
اسلام آباد میں وفاقی ترقیاتی ادارے (CDA) کی چالیس کھرب روپے سے زائد مالیت کی زمین پر اعلیٰ سرکاری افسران کی ملی بھگت سے سیاسی و غیر سیاسی اہم شخصیات، نجی ہاؤسنگ اسکیموں اور بعض سرکاری اداروں نے قبضہ کر رکھا ہے۔ اس لوٹ مار اور قبضہ مافیا میں تمام بڑی جماعتوں پیپلز پارٹی، نواز لیگ اور تحریک انصاف کے اہم افراد بھی شامل ہیں۔ سیکٹر جی بارہ کے علاوہ اسلام آباد کے اندر بعض پلاٹوں پر لینڈ مافیا قابض ہے۔ جبکہ بھارہ کہو، بنی گالہ، سیکٹر جی بارہ، شاہ اللہ دتہ، کورنگ نالہ کے اطراف، بھارہ کہو سے سل کھیتر اور سترہ میل تک ہزاروں کنال سرکاری اراضی پر نجی ادارے اور اہم شخصیات قابض ہیں۔ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ بھی سیکٹر جی بارہ میں تجاوزات کے خلاف آپریشن کا حکم دے چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے سابق ڈپٹی قومی اسپیکر فیصل کریم کنڈی جن کا پیٹرول پمپ گرایا گیا، ان سمیت سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کا بھائی اور سابق وفاقی وزیر اکرم درانی جیسی شخصیات بھی خاموش ہیں۔ البتہ نون لیگ کے دو سابق ارکان قومی اسمبلی اسلام آباد سے انجم عقیل خان اور اس علاقے سے ملحق راولپنڈی کے انتخابی حلقے کے ملک ابرار خان جو سیکٹر جی بارہ میں ایک بڑے رقبے پر قابض تھے، عام لوگوں کا دکھ درد لے کر قبضہ مافیا کے خلاف جاری اس آپریشن کے خلاف میدان میں اترے ہیں۔ جبکہ ایک ریٹائرڈ ایڈمرل محمد افضل طاہر نے بھی وزیر اعظم کو ایک لمبا چوڑا اور تفصیلی خط لکھا ہے، جس میں سیکٹر جی بارہ میں شادی ہالوں کے مالکان کی مظلومیت کا رونا رویا ہے۔ لیکن اپنے اس خط میں انہوں نے اعتراف کیا ہے کہ اسلام آباد میں کھربوں روپے مالیت کی ہزاروں کنال زمین پر قبضہ ہے اور تجاوزات قائم ہیں۔ سیکٹر جی بارہ جہاں آپریشن جاری ہے، وہاں غیر قانونی طور پر آٹھ شادی ہال، ایک پیٹرول پمپ، اس سے ملحق عالمی فاسٹ فوڈ کمپنی کا سیٹ اپ، متعدد پلازے، بڑی تعداد میں رہائش گاہیں اور ملک ابرار احمد اور انجم عقیل جیسے بااثر افراد کے سیاسی ڈیرے قائم تھے۔ معتبر ذرائع کے مطابق کشمیر ہائی وے پر یہ زمین جس پر ناجائز قبضہ کیا گیا تھا، کی مالیت اربوں روپے ہے۔ اسلام آباد میں ایک کنال کے بعض پلاٹ ایسے بھی ہیں جن کے مالکان انہیں ایک ارب روپے میں بھی فروخت کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ بلیو ایریا میں مصروف کثیر المنزلہ عمارت سنٹورس کے سامنے اس کے مالکان کا دو کنال کا پلاٹ ہے، جو ان کو اونے پونے داموں سی ڈی اے نے مخصوص حالات میں الاٹ کر دیا تھا۔ ذرائع کے مطابق کوئٹہ کے ایک معروف تعمیراتی گروپ نے سنٹورس کے مالکان کو کثیر المنزلہ تعمیر کے لئے مخصوص ان دو پلاٹوں کے دو ارب روپے آفر کئے، لیکن مالکان نے فروخت کرنے سے انکار کر دیا۔ اس سے متصل سی ڈی اے کا چار سے پانچ ایکڑ کا رقبہ موجود ہے، جس پر سنٹورس نے رہائشی کالونی، پارکنگ، مسجد اور دیگر تعمیرات کرلی تھیں۔ چالیس پچاس ارب روپے مالیت کی یہ اراضی دو سال پہلے سی ڈی اے نے واگزار کرالی تھی۔
ایک ذمہ دار ذریعے کا کہنا ہے کہ سی ڈی اے اور ضلعی انتظامیہ کے بعض اہم عہدوں پر فائز افسران نے ناجائز قبضے کرانے اور غیر قانونی تعمیرات میں لینڈ مافیا اور جرائم پیشہ افراد کی مدد کی اور اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کی بجائے کروڑوں روپے کی رشوت وصول کی۔ اس ذریعے کے مطابق سی ڈی اے کے ایک ذیلی ادارے بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے ایک انسپکٹر کے خلاف کسی شکایت کے بعد تحقیقات کرائی گئیں تو اس کے اکاؤنٹ میں ستّر کروڑ روپے موجود پائے گئے، جس پر اسے فوری طور پر معطل کر دیا گیا۔ لیکن اب وہ سی ڈی اے میں ہی موجود ہے اور اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے عہدے پر براجمان ہے۔ ایک سابق چیئرمین جو گزشتہ برسوں میں پابند سلاسل بھی رہے، ان کی فرنٹ مین ایک خاتون تھی، جس کے اکاؤنٹ میں رقم جمع ہوتی تھی اور چیئرمین صاحب لوگوں کے کام کرتے تھے۔ اچانک چیئرمین کا تبادلہ ہوگیا تو وہ خاتون منظر سے غائب ہوگئی۔ سابق چیئرمین کے ہاتھ نہ وہ خاتون آئی اور نہ ہی رقم ملی۔ تفتیشی اداروں کے سامنے سابق چیئرمین اپنی دہری بدنصیبی کا رونا روتے ہوئے معافی طلب کرتے رہے۔ ان کے خلاف کیس اب بھی چل رہا ہے۔
سی ڈی اے نے چک شہزاد سے ملوٹ کی جانب کروڑوں روپے مالیت کی دو رویہ کارپٹڈ سڑک تعمیر کی اور کہا گیا کہ اس جانب وہ ایک بڑے ہاؤسنگ پراجیکٹ کا اعلان کرنے والی ہے۔ اس منصوبے کا اعلان فائلوں تک محدود ہے۔ لیکن بحریہ کے مالکان نے بحریہ انکلیو کا اعلان کر کے اور سینکڑوں کنال اراضی پر ناجائز اور دھونس دھاندلی سے قبضہ کرکے اربوں روپے کما لئے اور سڑک کی تعمیر پر اسے ایک روپیہ بھی خرچ نہ کرنا پڑا۔ اسی علاقے میں پی ٹی آئی کے رہنما علیم خان کا ہاؤسنگ پراجیکٹ ہے۔ ان پر بھی ناجائز قبضے کا الزام ہے۔ سابق چیئرمین سینیٹ نیر بخاری اور ان کا خاندان پچاس کنال سے زائد قائد اعظم یونیورسٹی کی ملکیتی زمین پر قابض ہے۔
سیکٹر جی بارہ کے متاثرین اور ان کے رہنماؤں کا موقف ہے کہ ان میں سے بعض پچھلے چودہ پندرہ سال سے وہاں رہ رہے ہیں اور دوران بھی تعمیرات جاری رہیں۔ کیا سی ڈی اے اور متعلقہ حکام اس وقت سو رہے تھے کہ اب ان کو دربدر کیا جارہا ہے۔ جبکہ بعض کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس این او سی بھی موجود ہے۔ اس بارے میں وفاقی وزیر مملکت برائے داخلہ امور شہریار آفریدی کا موقف ہے کہ سی ڈی اے یا دیگر جن اداروں کے مالکان نے اس طرح کے لیٹر یا این او سی جاری کئے، وہ غیر قانونی تھے اور ان افسران کے خلاف بھی کارروائی ہوگی۔ انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ پورے اسلام آباد میں قبضہ مافیا کے خلاف آپریشن ہوگا اور بھاری مالیت کی سرکاری اراضی واگزار کرائی جائے گی۔ سی ڈی اے کے ایک ذمہ دار افسر نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مارگلہ کے پہاڑ کی چوٹی پر واقع مونال ریسٹورنٹ اور لیمونٹانا (Lamontana) ریسٹورنٹ سی ڈی اے نے خود تعمیر کرکے ٹھیکے پر دے رکھے ہیں۔

Comments (0)
Add Comment