امت رپورٹ
سعودی عرب کے نامور عالم دین اور مشہور مبلغ شیخ سلمان عودہ کو حراست میں لئے گزشتہ روز (10ستمبر کو) ایک سال مکمل ہوگیا۔ شیخ عودہ کے بعد گرفتاریوں کا یہ سلسلہ تسلسل سے جاری ہے۔ گزشتہ ماہ امام حرم شیخ صالح آل طالب کو بھی حق گوئی کی پاداش میں پسِ زندان دھکیلا گیا۔ اب تک ساڑھے تین سو سے زائد افراد بغیر جرم بتائے غائب کئے جا چکے ہیں۔
شیخ عودہ کا شمار عالم اسلام کی بڑی علمی شخصیات میں ہوتا ہے۔ انہوں نے 62 کتابیں تصنیف کی ہیں۔ انٹرنیشنل یونین آف مسلم اسکالرز دوحہ قطرکے نائب صدر اور یورپی افتاء کونسل کے مؤقر رکن ہیں، اس لئے پوری دنیا میں انہیں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ شیخ سلمان عودہ کے بعد ان کے بھائی خالد عودہ کو بھی گرفتار کیا جا چکا ہے۔ شیخ سلمان عودہ کا سب سے بڑا جرم ان کا ایک ٹوئٹ تھا، جس میں انہوں نے خدا کی حمد و ثنا کے بعد مسلمانوں کے مابین اتحاد و یگانگت کی دعا کی تھی۔ بدقسمتی سے یہ ٹوئٹ انہوں نے ایک ایسے وقت میں کیا تھا، جب سعودی عرب اپنے خلیجی اتحادیوں اور مصر کی مدد سے قطر کا ناطقہ بند کرنے کا اعلان کر چکا تھا۔ دوران حراست انہوں نے بھوک ہڑتال بھی کی اور ان کے انتقال کی افواہ بھی اڑائی گئی۔
مسجد حرام کے امام و خطیب شیخ صالح آل طالب کی گرفتاری حال ہی میں حج کے موقع پر ان کے ایک خطبے کے بعد عمل میں لائی گئی۔ اگرچہ سرکاری طور پر اس حوالے سے مکمل خاموشی طاری ہے۔ تاہم ٹویٹر پر ’’معتقلی الرائی‘‘ (اظہار رائے کے جرم میں گرفتارشدگان) نامی اکائونٹ نے شیخ صالح کی گرفتاری کی تصدیق کی ہے۔ گرفتاری کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ مسجد حرام کے خطیب نے منکرات اور اس کے فاعل کے منکر ہونے پر خطبہ دیا تھا اور شیخ نے اپنے آخری خطبے میں سرکشوں اور ظالموں پر بد دعائیں کی تھیں۔ واضح رہے کہ شیخ صالح آل طالب کا تعلق بنی تمیم سے ہے اور وہ ایسا خاندان ہے، جو علوم و قضا اور حفظ قرآن کے سلسلے میں معروف ہے۔ انہوں نے آخری خطبہ اپنی گرفتاری سے چند گھنٹوں پہلے اتوار کے دن دیا۔ آج ان کی گرفتاری کو 23 دن ہوگئے ہیں۔ سعودی شہری حقوق کے نگہبان یحییٰ عسیری کے مطابق سعودی حکومت ہر اس شخص کو پابہ زنجیر کردینے کے درپے ہے جو اس کی کسی قسم کی پالیسی پر تنقید کرے۔ عسیری نے الجزیرہ کو ایک انٹرویو میں کہا کہ شیخ صالح کی گرفتاری ان کے خطبے کے سبب بھی ہو سکتی ہے اور کسی دوسری وجہ سے بھی۔ شیخ صالح بہت زبردست خطبے دیا کرتے تھے اور حق گوئی کے معاملے میں کسی ملامت گر کی پروا نہیں کرتے تھے۔ اپنے خطبوں میں وہ تمام عالم کے مسلمانوں کے حالات اور ان کی پریشانیوں کا ذکر کرتے تھے۔ وہیں اس سلسلے میں سعودی عرب حکام کی جانب سے ابھی تک کوئی تصدیق نہیں کی گئی ہے اور نہ ہی امام حرم کی گرفتاری کے تعلق سے کوئی خبر نشر کی گئی ہے۔ تاہم بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ شیخ صالح پر داعش کیلئے فنڈنگ کا الزام دھرا گیا ہے۔ واضح رہے کہ شیخ صالح گزشتہ برس پاکستان کے دورے پر آئے تھے۔ انہوں نے دینی علوم کے ساتھ آکسفورڈ یونیورسٹی سے بھی تعلیم حاصل کی ہے۔ وہ ملک بھر میں حفظ قرآن کے درجنوں مکاتب بھی چلاتے ہیں۔ جدید سعودی عرب کی تاریخ میں گرفتار ہونے والے وہ مسجد حرام کے پہلے امام و خطیب ہیں۔ مسجد نبوی کے سینئر ترین امام و خطیب اور عالم اسلام کے نامور قاری شیخ علی حذیفی کو ان کے خطبوں پر دو بار حراست میں لیا جا چکا ہے۔
قبل ازیں ملک کے ایک اور جید عالم شیخ عوض القرنی کو ایک ٹوئٹ پر ایک لاکھ ریال کا جرمانے کی سزا ہوئی تھی، پھر انہیں بھی لاپتہ کر دیا گیا۔ شیخ عوض القرنی 16 کتابوں کے مصنف ہیں۔ چند روز قبل مکہ مکرمہ کی جامعہ امام محمد بن سعود الاسلامیہ کے استاذ اور ممتاز و بزرگ عالم دین شیخ ناصر العمر کو بھی گرفتار کیا گیا۔ شیخ ناصر 8 بڑی کتب کے علاوہ درجنوں رسالوں کے مصنف ہیں۔ محض ایک ٹوئٹ کی وجہ سے گزشتہ برس اکتوبر میں ان پر سفر کی پابندی عائد کی گئی تھی۔ الجزیرہ کے مطابق مذکورہ ٹوئٹ میں کسی قسم کی کوئی متنازعہ یا سیاسی بات نہیں تھی۔ گرفتار شدگان میں عالم اسلام کے معروف قاری شیخ ادریس ابکر بھی شامل ہیں۔شیخ ادریس اپنی رقت آمیز تلاوت کے سبب دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ یوٹیوب پر ان کی تلاوت کی ایک ویڈیو تقریباً ایک کروڑ بار دیکھی جا چکی ہے۔ علاوہ ازیں شیخ سفر الحوالی، شیخ احمد العماری (سابق استاذ مدینہ یونیورسٹی) سمیت سینکڑوں افراد کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔ جن میں 16 علما صرف جامعہ امام محمد کے اساتذہ ہیں۔ حراست میں لیے جانے والے افراد میں علماء کے علاوہ، صحافی، مفکر، ڈاکٹر، پروفیسر، اسکالر، ادیب اور شاعر بھی شامل ہیں۔ جن میں ڈاکٹر خالد العجمی، پروفیسر عبد اللطیف، ڈاکٹر عمر علی، ڈاکٹر عادل بانعمہ، محمد الہبدان، ڈاکٹر عبد المحسن، غرم البیشی، محمد عبد العزیز الخضیری، وابراہیم الحارثی اور حسن ابراہیم المالکی قابل ذکر ہیں۔ جبکہ مشہور بزنس مین عصام الزامل بھی گرفتار ہیں۔ ان تمام افراد کو قطر کے حوالے سے سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کے مؤقف کی حمایت نہ کرنے پر گرفتار کیا گیا ہے۔
اب چند روز سے عرب میڈیا پر خبر گرم ہے کہ شیخ سلمان عودہ کو سزائے موت دیئے جانے کا امکان ہے۔ الجزیرہ کے مطابق ان افراد کی گرفتاری کے حوالے سے سعودی سرکار اور مقامی میڈیا مکمل خاموش ہے۔ تاہم ایک ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ان سے متعلق خبریں منظر عام پر آرہی ہیں۔ شیخ سلمان عودہ کو خفیہ ٹرائل کیا جا رہا ہے۔ سعودی عدالت میں حکومت کے وکیل نے انہیں تعزیراً سزائے موت دینے کی سفارش کی ہے۔ ان پر 37 مختلف سنگین الزامات لگائے گئے ہیں۔ ان کے صاحبزادہ عبد اللہ العودۃ کے بقول شیخ پر ایک ’’سنگین‘‘ الزام یہ بھی عائد کیا گیا ہے کہ انہوں نے ناموس شان رسالت کے دفاع کیلئے کویت میں ’’النصرۃ‘‘ نامی تنظیم کی بنیاد رکھی تھی۔
شیخ عودہ کے بعد اتوار کے روز شیخ موسیٰ، ڈاکٹر عوض القرنی اور ڈاکٹر علی العمری کو بھی تعزیراً قتل کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ جس کا فیصلہ آئندہ کچھ روز میں عدالت کرے گی۔ جبکہ 2016ء سے گرفتار مشہور عالم شیخ عبد العزیز الطریفی کی جیل میں حالت انتہائی تشویش ناک ہونے کے باعث وہ اسپتال میں ایڈمٹ ہیں۔ اسی طرح امریکی فوج کی سعودیہ میں موجودگی کے خلاف فتویٰ دینے والے مشہور بزرگ عالم دین شیخ سفر الحوالی کو بھی جیل سے اسپتال منتقل کیا جا چکا ہے۔ دونوں علماء کو علاج سے محروم رکھ کر دار البقاء منتقل کرنے کی اطلاعات ہیں۔