خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروقؓ بیت المال کو مسلمانوں کی امانت سمجھتے تھے۔ ان کے دور خلافت میں ایک پیسہ بھی بے جا خرچ نہیں ہونے پاتا تھا۔ مال غنیمت کے خمس کے علاوہ خراج ، عشر، جزیہ اور عشور کی بھاری رقوم دھڑا دھڑ آ رہی تھیں اور مستحقین میں تقسیم کی جاتی تھیں۔ مگر حضرت عمرؓ وہی 2 درہم روزانہ اور کپڑوں کے 2 جوڑے سالانہ لیتے تھے اور وہ بھی جب اپنا مال بقدر کفاف موجود نہ ہوتا۔ بیت المال سے تمام مردوں، عورتوں، بچوں، بوڑھوں، لونڈیوں، غلاموں وغیرہ کے روزینے مقرر کر دیئے تھے۔ صدقات وصول کرنے والوں کی تاکیدی حکم تھا کہ وصولی میں عدل و انصاف کو ملحوظ رکھیں۔ ہر قبیلے کے فقراء کو اس کے صدقات واپس کئے جائیں تاکہ وہ سوال کی ذلت کی سے بچ سکیں۔ پھر جو کچھ بچ رہے، وہ مرکزی بیت المال کے لیے مدینہ بھیج دیں۔ بیت المال میں جمع شدہ رقوم میں سے فقرائ، مساکین، مسافروں، مقروضوں، کی مدد کرتے، غلاموں کی گردنیں چھڑانے اور مجاہدین کے لیے سامان جنگ مہیا کرنے کے لیے خرچ کیا جاتا۔ فرمایا کرتے کہ زکوٰۃ، خراج عشر، جزیہ، خمس عشور وغیرہ محاصل مسلمانوں کی اجتماعی ملکیت ہیں۔ ایک دفعہ جب بہت سا مال غنیمت آیا تو آپ کی صاحب زادی ام المومنین حضرت حفصہؓ تشریف لائیں اور فرمایا کہ ’’امیر المومنین! میں ذوی القربیٰ میں ہوں، میرا حق دیجئے۔‘‘ فرمایا ’’بیٹی! تیرا حق میرے ذاتی مال میں ہے، نہ کہ مال غنیمت میں۔ تو نے اپنے باپ کو دھوکا دینا چاہا۔‘‘ وہ دو ٹوک اور روکھا جواب سن کر خفیف ہو کر واپس چلی گئیں۔ اسی طرح ایک دفعہ آپ کے خسر مال غنیمت میں سے کچھ لینے آئے اور ڈانٹ دیا۔ پھر اپنے ذاتی مال سے ان کی ضرورت پوری کر دی۔ ایک دفعہ آپ بیمار ہو گئے۔ طبیب نے علاج کے طور پر شہد تجویز کیا۔ بیت المال میں شہد موجود تھا۔ آپؓ نے مسجد نبویؐ میں مسلمانوں کے مجمع میں جا کرکہا کہ آپ لوگ اجازت دیں تو میں تھوڑا سا شہد لے لوں۔ بہت معمولی سی چیز تھی، لیکن تقویٰ، دیانت اور احساس ذمہ داری کا تقاضا یہی تھا کہ مسلمانوں کی امانت میں سے ان کی اجازت کے بغیر کچھ نہ لیا جائے۔
ایک دفعہ سرکاری سفیر قیصر روم کے پاس جانے لگا تو حضرت ام کلثومؓ نے جو آپ کی چہیتی زوجہ اور حضرت علیؓ کی صاحبزادی تھیں، سفیر کے ہاتھ قیصر کی ملکہ کے لیے اپنی طرف سے عطر کی چند شیشیاں بطور تحفہ بھیج دیں۔ قیصر کی ملکہ نے جوابی تحفہ کے طور پر شیشیوں میں جواہرات بھر کر بھیجے۔ حضرت عمرؓ کو معلوم ہوا تو حضرت ام کلثومؓ سے فرمایا کہ اگرچہ عطر تمہارا تھا، لیکن اسے سرکاری سفیر لے کر گیا اور اس کے مصارف بیت المال سے ادا کئے گئے۔ لہٰذا یہ جواہرات بیت المال کا حق ہیں۔ تم صرف عطر کی قیمت لے سکتی ہو۔ چنانچہ عطر کی قیمت انہیں دیدی اور جواہرات بیت المال میں داخل کر دیئے۔ سرکاری تحائف کا یہ اصول حضرت فاروق اعظمؓ نے رسول اکرمؐ سے سیکھ کر آپؐ کی نواسی اور اپنی بیوی پر جاری کیا۔
ایک دفعہ حضرت فاروق اعظمؓ کے صاحبزادے حضرت عبد اللہؓ نے ایک اونٹ خرید کر سرکاری چراگاہ میں چرنے کے لیے بھیج دیا۔ جب وہاں چر چگ کر خوب موٹا تازہ ہو گیا تو بازار میں بیچنے کے لیے بھیج دیا۔ حضرت عمرؓ بازاروں، منڈیوں میں گھومتے رہتے تھے۔ جب انہوں نے خوب پلا ہوا فربہ اونٹ دیکھا تو پوچھا کس کا ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ آپ کے صاحبزادے حضر ت عبد اللہؓ کا ہے۔ آپؓ نے حضرت عبد اللہؓ سے فرمایا کہ چونکہ اونٹ سرکاری چراگاہ میں چر کو موٹا ہوا ہے۔ اس لیے اتنی ہی قیمت کے حق دار ہو، جتنے میں خریدا تھا۔ چنانچہ زائد رقم ان سے لے کر بیت المال میں داخل کر دی۔
بیت المال کے مہتمم نے ایک دفعہ بیت المال کا جائزہ لیا تو صرف ایک درہم موجود تھا۔ یہ خیال کر کے ایک معمولی درہم بیت المال میں کیوں پڑا رہے۔ حضرت فاروق اعظمؓ کا ایک بچہ جو اتفاق سے وہاں موجود تھا۔ اسے وہ درہم دے دیا۔ معلوم ہونے پر آپؓ بہت خفا ہوئے، بچے سے درہم لے کر خود بیت المال میں داخل کرا دیا اور مہتمم سے کہا: کیا تمہیں مدینہ میں میری اولاد کے سوائے کوئی غریب نظر نہ آیا؟ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ قیامت کے دن امت محمدیؐ کا مطالبہ میری گردن پر رہے؟
احساس ذمہ داری کی شدت ملاحظہ ہو کہ ایک دفعہ بیت المال کا ایک اونٹ بھاگ گیا۔ آپؓ خود اس کی تلاش میں دوڑ دھوپ کرنے لگے۔ عین اس وقت ایک بڑے رئیس اور سردار احنف بن قیسؓ (فاتح خراسان) ملاقات کو آ گئے۔ ان سے کہا کہ بیت المال کا ایک اونٹ بھاگ گیا ہے، آئو ہم دونوں مل کر تلاش کریں۔ تم جانتے ہوں ایک اونٹ میں کتنے غریبوں کا حق ہے؟ انہوں نے کہا کہ ’’امیر المومنین! آپ کیوں تکلیف کرتے ہیں، کسی غلام کو حکم دیجئے، وہ ڈھونڈ لائے گا۔‘‘ فرمایا، مجھ سے بڑھ کر کون غلام ہو سکتا ہے؟
ایک مرتبہ صدقات کے اونٹوں کی کیفیت اور گنتی وغیرہ بڑی احتیاط اور باریک بینی سے مطالعہ کر کے حضرت علیؓ کو بتاتے اور وہ حضرت عثمانؓ سے رجسٹر میں درج کراتے جاتے۔ حضرت علیؓ اس کارروائی سے بڑے متاثر ہوئے اور محظوظ بھی۔ اور انہوں نے قرآن مجید کی وہ آیت تلاوت کی جو مدین کے بزرگ (حضرت شعیبؑ) کی صاحبزادی کی زبانی حضرت موسیٰؑ کو ملازم رکھنے کے بارے میں سفارش تھی۔
ترجمہ: ’’ابا جان! اس شخص کو نوکر رکھ لیجئے۔ بہترین آدمی جسے آپ ملازم رکھیں وہی ہو سکتا ہے جو مضبوط اور امانت دار ہو۔‘‘ (26:28)
اس کے بعد حضرت علیؓ نے فرمایا کہ یہ ہیں: ’’قوی الامین۔‘‘
’’حضرت عمر فاروق اعظمؓ‘‘ کتاب کے مصنف محمد حسین ہیکل لکھتے ہیں:
’’وہ (حضرت عمرؓ) مسلمانوں سے فرمایا کرتے، مجھے امید ہے کہ جب تک میں زندہ رہوں گا، خدا نے چاہاتو تمہاری خدمت کرنے میں حق کا دامن اپنے ہاتھ سے نہیں چھوڑوں گا اور کوئی مسلمان، چاہے وہ محاذ جنگ ہی پر کیوں نہ ہو، ایسا نہ ہو گا جس کو مال میں سے اس کا حصہ نہ ملا ہو گا۔ اور آپ کا ارشاد ہوتا تھا میں مسلمان ہوں اور ایک بندۂ ضعیف، مگر یہ کہ خدا عز و جل میری مدد فرمائے، تمہاری خلافت میری فطرت میں کوئی تغیر پیدا نہیں کرے گی۔ عظمت صرف خدائے بزرگ و برتر کے لیے ہے۔ بندوں کا اس میں کوئی حصہ نہیں، تم میں سے کوئی یہ نہ کہہ سکے گا کہ جب سے حضرت عمرؓ خلیفہ ہوا ہے، بدل گیا ہے۔ میں اپنا حق جانتا ہوں اور اپنی ایک ایک بات کھول کر تمہارے سامنے رکھتا ہوں۔ اگر کسی کی کوئی حاجت پوری نہ ہوئی ہو یا کسی پر ناحق ظلم کیا گیا ہو یا کسی کو میرے مزاج سے تکلیف پہنچی ہو، تو وہ آ کر مجھے پکڑے، کیونکہ میں بھی تم ہی جیسا ایک انسان ہوں … مجھے تم سب سے زیادہ تمہاری بھلائی محبوب ہے اور تمہاری تکلیف مجھ پرایک بوجھ ہے … مجھے اپنی امانت اور ذمہ داریوں کا پورا پورا احساس ہے۔ جو مسئلہ میرے سامنے آئے گا ان شاء اللہ میں خود ہی اسے حل کروں گا، کسی دوسرے پر نہیں چھوڑوں گا، مجھے صرف دیانتدار اور مخلص کارکنوں کی ضرورت ہے۔ ان شاء اللہ میں ایسے ہی لوگوں کو اپنی امانت سپرد کروں گا۔‘‘
کفالت عامہ کے سلسلے میں حضرت فاروق اعظمؓ کی ہدایات تھیں کہ مسلمان ہو یا ذمی، ہر محتاج و تنگ دست کی مدد کی جائے، ہر مقروض کا قرضہ ادا کیا جائے، ہر کمزور، ضعیف اور مظلوم کی اعانت کی جائے۔ ہر بھوکے ننگے کو کھانا کپڑا مہیا کیا جائے۔ لاوارث بچوں کی پرورش اور دیکھ بھال بھی حکومت کی ذمہ داری تھی۔