خلیفہ ثانی ؓ مقروض شہید ہوئے

خلیفہ ہونے کے چند سال بعد تک حضرت عمرؓ نے بیت المال سے کچھ نہیں لیا۔ پھر حضرت علیؓ اور دوسرے اکابر صحابہؓ کے مشورے سے معمولی خوراک اور لباس کے لیے روزینہ مقرر ہو گیا۔ 15ھ میں جب سب لوگوں کے وظیفے مقرر کئے گئے تو آپ کے بھی 5000 درہم سالانہ مقرر ہو گئے۔ اس میں سے بھی اپنے حاجت مند رشتہ داروں اور دوسرے محتاجوں کی مدد کرتے اور مقروض رہتے۔ شہادت کے وقت آپؓ 86000 درہم کے مقروض تھے۔ یہ قرضہ آپؓ کا مکان بیج کر ادا کیا گیا۔ دنیا کی سب سے بڑی سلطنت کا حکمران اور مقروض! ذرا سوچئے اور آج کے حکمرانوں کو اپنی چشم تصور کے سامنے لائیے۔ آپ نے بار بار سر عام فرمایا کہ مسلمانوں کے مال میں میرا اتنا ہی حق ہے جتنا ایک یتیم کے مال میں متولی کا ہوتا ہے۔ ضرورت ہوگی تو بقدر کفاف لوں گا ورنہ نہیں۔ ایک دفعہ فرمایا کہ مسلمانوں کے مال میں سے مجھے صرف دو جوڑے، کپڑے ایک جاڑوں کے لیے ایک گرمیوں کے لیے، اور حج و عمرہ کے لیے اونٹ لینا جائز ہے۔ اس کے علاوہ اپنے اور اپنے متعلقین کے لیے قریش کے متوسط گھرانوں کے معیار زندگی کے مطابق کھانے پینے کا سامان۔ پھر میں کسی دوسرے مسلمان کی طرح ایک عام فرد ہوں۔
حضرت عمرؓ چاہتے تو فارغ البالی اور عیش کی زندگی بسر کر سکتے تھے۔ لیکن ان کے پیش نظر اسوئہ رسولؐ تھا۔ انہوں نے خلافت کو ایک بہت کڑا امتحان سمجھا اور اس پر پورا اترنے کی کوشش کی۔ فرمایا کرتے اے اللہ ! میرے رزق کی اتنی افراط بھی نہ ہو کہ میں تجھ سے سرکشی اختیار کرنے لگ جائوں۔
علامہ ابن کثیرؒ نے البدایہ و النہایہ میںلکھا ہے کہ ’’آپؓ خدا سے بہت ڈرتے، سادہ زندگی بسر کرتے اور معمولی خوراک کھاتے، بایں ہمہ دین حق کے تقاضوںکو پورا کرنے میں بڑے مستعد اور شدید تھے۔ سادگی کا یہ عالم تھا کہ لباس میں چمڑے کے پیوند لگا لیتے۔ پانی سے بھرا ہوا مشکیزہ اٹھا لیتے۔ گدھے کی ننگی پیٹھ پر سوار ہو جاتے، بہت کم ہنستے اور کبھی کسی سے مذاق نہ کرتے۔ آپ کی انگوٹھی پر یہ عبارت کندہ تھی ’’کفی بالموت واعظا یا عمر‘‘ (اے عمر تیرے لیے موت کا ناصح ہونا کافی ہے)

Comments (0)
Add Comment