جنید رضا
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء میں حضرت عمر فاروقؓ کے کئی الہام اور آپؓ کی کئی کرامات نقل کی ہیں، ان میں سے کچھ درج ذیل ہیں:
ایک روز آپؓ مدینہ منورہ میں خطبۂ جمعہ دے رہے تھے کہ یکایک بلند آواز سے دو مرتبہ یا تین مرتبہ فرمایا ’’یا ساریۃ الجبل!‘‘ اور اس کے بعد پھر خطبہ شروع کردیا، تمام حاضرین کو حیرت تھی کہ یہ بے ربط جملہ آپؓ کی زبان مبارک سے کیسا نکلا، حضرت عبد الرحمٰن بن عوفؓ سے بے تکلفی زیادہ تھی، انہوں نے آپؓ سے دریافت کیا کہ آج آپ نے خطبہ کے درمیان میں ’’یا ساریۃ الحبل‘‘ کیوں فرمایا؟ تو آپؓ نے اپنے ایک لشکر کا ذکر کیا جو عراق میں بمقام نہاوند جہاد میں مشغول تھا، اس لشکر کے امیر حضرت ساریہؒ تھے، فرمایا کہ میں نے دیکھا کہ وہ پہاڑ کے پاس لڑ رہے ہیں اور دشمن کی فوج سامنے سے بھی آرہی ہے اور پیچھے سے بھی آرہی ہے، جس کی ان لوگوں کو خبر نہیں، یہ دیکھ کر میرا دل قابو میں نہ رہا اور میں نے آواز دی کہ اے ساریہ! اس پہاڑی سے مل جاؤ، تھوڑے دنوں بعد جب ساریہ کا قاصد آیا تو اس نے سارا واقعہ بیان کیا کہ ہم لوگ لڑائی میں مشغول تھے کہ یکایک یہ آواز آئی کہ ’’یا ساریۃ الجبل‘‘ اس آواز کو سن کر ہم لوگ پہاڑ سے مل گئے اور ہم کو فتح ملی۔
ایک مرتبہ ایک لشکر آپؓ کا کسی دور دراز مقام میں مشغول جہاد تھا۔ ایک دن مدینہ منورہ میں بیٹھے بیٹھے آپؓ نے بلند آواز سے فرمایا ’’لبیکاہ!‘‘ کسی کی سمجھ میں نہ آیا کہ کیا بات ہے، یہاں تک کہ وہ لشکر واپس آیا اور سردار لشکر نے فتوحات کا بیان شروع کیا، حضرت فاروق اعظمؓ نے فرمایا کہ ان باتوں کو رہنے دو، اس شخص کا حال بیان کرو جس کو تم نے جبراً پانی میں بھیجا تھا، اس پر کیا گزری؟۔ سردار لشکر نے کہا امیر المؤمنین! خدا کی قسم میں نے اس کے ساتھ بدی کا ارادہ نہیں کیا تھا، بات یہ ہوئی کہ ہم لوگ ایک پانی پر پہنچے جس کی گہرائی کی حد معلوم نہ تھی کہ اسے عبور کیا جا سکے، لہٰذا میں نے اس شخص کو برہنہ کیا اور پانی میں بھیجا۔ ہوا بہت ٹھنڈی تھی، اس شخص پر ہوا کا اثر ہوگیا اور اس نے فریاد کی ’’واعمراہ! واعمراہ!‘‘ اس کے بعد وہ شخص سردی کی شدت سے انتقال کر گیا۔
جب لوگوں نے یہ قصہ سنا تو پھر وہ سمجھے کہ حضرت عمر فاروقؓ کی لبیک اسی مظلوم کے جواب میں تھی۔ آپؓ نے سردار لشکر پر شدید غصہ کا اظہار کیا اور مقتول شخص کے اہل وعیال کو خون بہا ادا کرنے کا حکم دیا۔
ایک مرتبہ آپؓ کے زمانہ خلافت میں زلزلہ آیا۔ آپؓ نے خدا تبارک وتعالیٰ کی حمد وثنا بیان کی اور زمین پر مار کر فرمایا: ’’ساکن ہو جا، کیا میں نے تیرے اوپر عدل نافذ نہیں کیا؟‘‘ تو فوراً زلزلہ رک گیا۔ کہتے ہیں اس کے بعد مدینہ منورہ میں دوبارہ زلزلہ نہیں آیا۔
جب مصر فتح ہوا تو اہل مصر نے فاتح مصر حضرت عمرو بن العاصؓ سے کہا کہ ہمارے ملک میں کاشتکاری کا دارومدار دریائے نیل پر ہے، ہمارے ہاں یہ دستور ہے کہ ہر سال ایک حسین وجمیل کنواری لڑکی دریا میں ڈالی جاتی ہے، اگر ایسا نہ کیا جائے تو دریا خشک ہو جاتا ہے اور قحط پڑ جاتا ہے، حضرت عمرو بن عاصؓ نے انہیں اس رسم سے روک دیا۔ جب دریا سوکھنے لگا تو حضرت عمرو بن عاصؓ نے یہ واقعہ حضرت فاروق اعظمؓ کو لکھ بھیجا۔ جواب میں آپؓ نے تحریر فرمایا کہ دین اسلام ایسی وحشیانہ وجاہلانہ رسموں کی اجازت نہیں دیتا اور آپؓ نے ایک خط دریائے نیل کے نام لکھ بھیجا، جس کا مضمون یہ تھا:
’’بسم اللہ الرحمٰن الرحیم… یہ خط خدا کے بندے عمر بن خطاب کی طرف سے نیل مصر کے نام ہے۔ اگر تو اپنے اختیار سے جاری ہے تو ہمیں تجھ سے کوئی کام نہیں اور اگر تو خدا کے حکم سے جاری ہے تو اب اسی کے نام پر جاری رہنا۔‘‘
اس خط کے ڈالتے ہی دریائے نیل بڑھنا شروع ہوا، پچھلے برسوں کی بہ نسبت چھ گز زیادہ بڑھا اور اس کے بعد سے نہیں سوکھا۔ (ازالۃ الخفاء)