ضیاءالرحمن چترالی
یکم محرم الحرام 23ھ بمطابق 7 نومبر 644ء کو اہل اسلام خلیفہ ثانی، مراد رسولؐ حضرت عمر فاروقؓ کی جدائی جیسے صدمے سے دوچار ہوئے اور سیدنا فاروق اعظمؓ کی شہادت سے امت مسلمہ کو ایسا نقصان پہنچا، جس کی تلافی کا کوئی امکان نہ تھا، کیونکہ حضرت عمرؓ کو نبی کریمؐ نے امت اور فتنوں کے درمیان حائل رکاوٹ قرار دیا تھا۔ جن کی وفات سے فتنوں کا دروازہ کھل گیا۔
امت مسلمہ کا اس بات پر اجماع ہے کہ انبیائے کرامؑ کے بعد سب سے افضل ہستی حضرت ابو بکر صدیقؓ ہیں اور ان کے بعد مقام و مرتبہ حضرت عمر فاروقؓ کا ہے۔ آپؓ کے فضائل اور مناقب سے احادیث کی کتب بھری پڑی ہیں۔ چنانچہ سیدنا عمر فاروقؓ کے بارے میں رسول اکرمؐ نے ارشاد فرمایا ’’اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر ہوتا۔‘‘ (ترمذی) حضور اکرمؐ نے بارگاہِ خداوندی میں جھولی پھیلا پھیلا کر جس شخصیت کو مانگا، وہ عظیم انسان بھی حضرت عمر فاروقؓ ہی ہیں، اسی وجہ سے آپ کو ’’مراد رسولؐ‘‘ بھی کہا جاتا ہے ۔
آپؓ کا نام عمر، ولدیت خطاب، لقب فاروق اور کنیت ابو حفص ہے۔ آپؓ کا شمار خاندان قریش کے باوجاہت اور شریف ترین لوگوں میں ہوتا تھا۔ حضرت عمر فاروقؓ کا رنگ سفید مائل بہ سرخی تھا، رخساروں پر گوشت کم، قد مبارک دراز تھا، جب لوگوں کے درمیان کھڑے ہوتے تو سب سے اونچے نظر آتے۔ آپؓ زبردست بہادر اور بڑے طاقتور تھے۔ ان کے ایمان لانے سے اسلام کو تقویت ملی۔ آپؓ کا سلسلہ نسب نویں پشت میں جا کر حضور اکرمؐ سے ملتا ہے۔ آپؓ نبوت کے چھٹے سال 33 سال کی عمر میں اسلام کی دولت سے مالا مال ہوئے۔ آپؓ سے قبل چالیس مرد اور گیارہ خواتین نور ایمان سے منور ہو چکے تھے۔ حضرت عمر فاروقؓ کی صاحبزادی حضرت حفصہؓ کو حضور اکرمؐ کی زوجہ محترمہ اور مسلمانوں کی ماں ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔ اس رشتہ سے آپؓ حضور اکرمؐ کے سسر ہیں۔
حضرت عمر فاروقؓ کی تائید میں اور ان کی رائے کے مطابق 27 بار قرآنی آیات نازل ہوئیں۔ آپؓ کی شان میں چالیس سے زیادہ احادیث نبویؐ موجود ہیں۔ ایک موقع پر حضور اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: ہر نبی کے دو وزیر آسمان والوں میں سے اور دو وزیر زمین والوں میں سے ہوتے ہیں، آسمان والوں میں سے میرے دو وزیر جبرائیلؑ اور میکائیلؑ ہیں اور زمین والوں میں سے دو ابو بکرؓ اور عمرؓ ہیں۔ (ترمذی) ایک مرتبہ حضور اکرمؐ گھر سے باہر نکل کر مسجد کی طرف تشریف لائے، آپ کے ہمراہ دائیں اور بائیں حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ تھے، اسی حالت میں آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن بھی ہم اسی طرح اٹھیں گے۔ (ترمذی) حضور اکرمؐ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ میرے بعد ابوبکر وعمر کی اقتداء کرنا۔ (مشکوٰۃ) حضرت ابن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ سیدنا فاروق اعظمؓ کا مسلمان ہو جانا اسلام کی فتح تھی۔ ان کی ہجرت نصرت الٰہی اور ان کی خلافت خدا کی رحمت تھی۔ حضرت عمر فاروقؓ کا اسلام لانے کا واقعہ مشہور ہے۔ جب آپؓ اسلام قبول کرنے کے لئے حضور اکرمؐ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو حضور اکرمؐ نے چند قدم آگے بڑھ کر حضرت عمر فاروقؓ کو گلے سے لگایا اور پھر حضرت عمر فاروقؓ کے سینے پر 3 مرتبہ ہاتھ پھیر کر دعا دی کہ خدایا! عمر کے سینے کو ایمان سے بھر دے۔
حضرت عمر فاروقؓ کے اسلام قبول کرنے سے صحابہ کرامؓ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور انہوں نے خوشی سے نعرئہ تکبیر بلند کیا۔ حضرت عمر فاروقؓ کے اسلام لانے سے کفر پر رعب پڑ گیا اور مسلمانوں نے پہلی اعلانیہ نماز کعبے میں ادا کی۔ آپؓ کی ہجرت کا واقعہ بھی انتہائی ایمان افروز ہے کہ آپؓ نے ہجرت سے قبل کعبے کا طواف کیا اور کفار کو مخاطب کر کے للکارا کہ میں رسول اکرمؐ کے حکم پر ہجرت کرکے مکہ سے مدینہ جا رہا ہوں، جس نے اپنی بیوی کو بیوہ کرانا ہو یا بچوں کو یتیم کرانا ہو، وہ میرا راستہ روک لے، لیکن کفار میں سے کسی کو روکنے کی ہمت نہ ہوئی۔ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمؐ نے ارشاد فرمایا کہ اے عمر بن خطاب قسم ہے، اس ذات پاک کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، شیطان جب تمہیں کسی راستہ پر چلتاہوا دیکھتا ہے تو اپنا راستہ بدل لیتا ہے۔ (بخاری و مسلم) ترمذی شریف میں ہے کہ حضور اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: اے عمر یقینا شیطان تم سے ڈرتا ہے۔ حضور اکرمؐ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ بلاشبہ حق تعالیٰ نے عمرؓ کی زبان اور دل پر حق کو جاری کر دیا۔ (ترمذی)
حضور کریمؐ ایک روز احد پہاڑ پر تشریف لے گئے۔ آپؐ کے ساتھ حضرت ابو بکرؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ بھی تھے۔ احد پہاڑ حرکت کرنے لگا تو آپؐ نے اپنے پائوں مبارک سے اشارہ کیا: اے احد! ٹھہر جا، تیرے اوپر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہید ہیں۔ (بخاری شریف) ایک مرتبہ حضور اکرمؐ نے جنت کی سیر کا ذکر فرمایا کہ میں جنت میں داخل ہوا، وہاں میں نے ایک محل دیکھا، میں نے اس کی خوبصورتی کے پیش نظر پوچھا کہ یہ محل کس کا ہے، جواب میں عرض کیا گیا: عمر بن خطاب کا ہے۔ حضور کریمؐ فرماتے ہیں کہ میرا جی چاہا کہ میں اس محل میں داخل ہو جائوں، مگر عمر! مجھے تمہاری غیرت یاد آگئی، اس لئے میں اس محل میں داخل نہیں ہوا، یہ سن کر حضرت عمر فاروقؓ رو پڑے اور عرض کیا: حضور! میرے ماں باپ آپ پر قربان، کیا میں آپ پر بھی غیرت کروں گا۔ سیدنا فاروق اعظمؓ نے اسلام قبول کرنے کے بعد تمام غزوات میں شرکت کی اور کفار کے خلاف شجاعت و بہادری کے خوب جوہر دکھائے۔ حضور اکرمؐ کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد سیدنا ابو بکر صدیقؓ مسلمانوں کے پہلے خلیفہ بنے۔ سیدنا صدیق اکبرؓ کو اپنے دور خلافت میں اس بات کا تجربہ ہو چکا تھا کہ ان کے بعد مسند خلافت کیلئے حضرت عمر فاروقؓ سے بہتر کوئی شخص نہیں ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ کے انتخاب کیلئے سیدنا صدیق اکبرؓ نے خفیہ رائے شماری کا طریقہ اختیار کیا۔ صحابہ کرامؓ کی اعلیٰ مشاورتی کونسل اور جلیل القدر صحابہ کرامؓ سے مشورے کے بعد حضرت ابو بکر صدیقؓ نے حضرت عمر فاروقؓ کی جانشینی کا اعلان کیا۔ بعض مورخین کے مطابق رائے شمار ی کے وقت چند صحابہ کرام ؓ نے کہا کہ حضرت عمر فاروقؓ کا مزاج سخت ہے، اگر وہ سختی پر قابو نہ پا سکے تو بڑا سانحہ ہوگا۔ حضرت سیدنا صدیق اکبرؓ نے جواب دیا کہ عمر کی سختی میری نرمی کی وجہ سے ہے، جب تنہا ان پر ذمہ داری عائد ہو گی تو یقینا جلال و جمال کا امتزاج قائم ہو جائے گا۔
سیدنا فاروق اعظمؓ نے خلیفہ بننے کے بعد خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اے لوگو! میری سختی اس وقت تک تھی، جب تم لوگ حضور اکرمؐ اور سیدنا ابو بکر صدیقؓ کی نرمیوں اور مہربانیوں سے فیض یاب تھے، میری سختی ان کی نرمی کے ساتھ مل کر اعتدال کی کیفیت پیدا کر دیتی ہے، اب میری سختی صرف ظالموں اور بدکاروں پر ہوگی، اس خطبے میں آپؓ نے سوال فرمایا کہ اے لوگو اگر میں سنت نبویؐ اور سیرت صدیقیؓ کے خلاف حکم دوں تو تم کیا کرو گے؟ لوگ خاموش رہے اور کچھ نہ بولے تو آپؓ نے پھر وہی سوال دہرایا تو ایک نوجوان تلوار کھینچ کر کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا: اس تلوار سے سر کاٹ دیں گے۔ اس جواب پر سیدنا فاروق اعظمؓ بہت خوش ہوئے۔ خلیفہ منتخب ہونے کے بعد سیدنا فاروق اعظمؓ منبر پر تشریف لائے تو اس سیڑھی پر بیٹھ گئے، جس سیڑھی پر حضرت ابو بکر صدیقؓ پائوں رکھتے تھے۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا اوپر بیٹھ جائیں تو فرمایا میرے لئے یہی کافی ہے کہ مجھے اس مقام پر جگہ مل جائے، جہاں صدیق اکبرؓ کے پائوں رہتے تھے۔ زہد و تقویٰ کی حالت یہ تھی کہ بیت المال میں سے اپنا وظیفہ سب سے کم مقرر کیا، جو آپؓ کی ضروریات کے لئے بہت کم تھا، بیت المال سے قرض لینے کی نوبت بھی آجاتی تھی، لباس کا یہ حال تھا کہ سال بھر میں بیت المال سے صرف دو جوڑے ہی لیتے تھے۔ حضرت زید بن ثابتؓ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ سیدنا فاروق اعظمؓ کے لباس میں سترہ پیوند شمار کئے، اپنی رعایا کی خبر گیری کیلئے راتوں کو اٹھ اٹھ کر گشت کیا کرتے تھے، جو صحابہ کرامؓ جہاد پر گئے ہوتے، ان کے گھروں کی ضروریات کا خیال کرتے اور ان کے لئے بازار سے سامان وغیرہ خود خریدتے اور ان کے گھروں میں پہنچاتے۔
سیدنا فاروق اعظمؓ کے دور خلافت میں جب حضرت عمرو بن عاصؓ نے بیت المقدس فتح کرنے کیلئے محاصرہ کیا تو یہود و نصاریٰ کے علماء نے کہا کہ تم لوگ بے فائدہ تکلیف اٹھا رہے ہو، تم بیت المقدس فتح نہیں کر سکتے، کیونکہ فاتح بیت المقدس کا حلیہ اور علامات ہماری آسمانی کتابوں میں لکھی ہوئی ہیں، اگر تمہارے امام و خلیفہ میں وہ سب باتیں موجود ہیں تو پھر ہم بغیر لڑائی اور جنگ کے بیت المقدس ان کے حوالے کردیں گے۔ اس واقعہ کی خبر جب سیدنا فاروق اعظمؓ کو دی گئی تو آپؓ بیت المقدس تشریف لے گئے۔ اس سفر میں ایک اونٹ آپؓ کے پاس تھا، جس پر آپؓ اور آپؓ کا غلام باری باری سوار ہوتے تھے۔ آپؓ نے جو کرتا پہنا ہوا تھا، اس میں بھی پیوند لگے ہوئے تھے۔ جب کہ کھانے کے لئے صرف جو اور چھوہارے موجود تھے۔ مسلمانوں کو جب علم ہوا کہ خلیفہ وقت تشریف لائے ہیں تو وہ ان کے استقبال کیلئے آگئے۔ سیدنا فاروق اعظمؓ کو اس حال میں دیکھا تو سب نے اصرار کرکے آپؓ کو عمدہ لباس پہنایا اور اچھے گھوڑے پر سوار کردیا، لیکن چند قدم چلنے کے بعد آپؓ نے فرمایا کہ میرے نفس پر اس کا برا اثر پڑتا ہے، پھر وہی پیوند لگا کرتا پہن لیا اور گھوڑے کے بجائے اونٹ پر سوار ہو گئے۔ جب شہر میں داخل ہوئے تو اس وقت باری کے مطابق غلام سوار تھا اور آپؓ نے پیوند لگا کرتا پہنا ہوا تھا اور اونٹ کی مہار آپؓ کے ہاتھ میں تھی۔ یہود و نصاریٰ نے جب آپؓ کو اس حالت میں دیکھا تو ان کے علماء کہنے لگے کہ ہماری آسمانی کتابوں میں بھی یہی لکھا کہ اس حلیہ اور علامات کا شخص بیت المقدس فتح کرے گا اور انہوں نے بغیر لڑائی کے بیت المقدس کی چابیاں حضرت فاروق اعظمؓ کے سپرد کردیں اور بیت المقدس ان کے حوالے کرکے بیت المقدس کے دروازے مسلمانوں کے لئے کھول دیئے۔
سیدنا فاروق اعظمؓ کے دور خلافت میں ان کے عدل و انصاف سے مسلم و غیر مسلم ہر کوئی نفع اٹھاتا تھا، آپؓ کا سنہرا دور خلافت مسلمانوں کی فتوحات و ترقی اور عروج کا زمانہ تھا۔ مسلمان اس قدر خوش حال ہوگئے تھے کہ لوگ زکوٰۃ لے کر نکلتے تھے، ان کو آسانی کے ساتھ کوئی زکوٰۃ لینے والا نہیں ملتا تھا۔ آپؓ کے دور خلافت میں مسلمانوں کو بے مثال فتوحات اور کامیابیاں حاصل ہوئیں، آپؓ نے قیصر و کسریٰ کو پیوند خاک کرکے اسلام کی عظمت کا پرچم لہرایا۔ اس کے ساتھ ساتھ شام، مصر، عراق، جزیرہ، خوزستان، آذربائیجان، فارس، کرمان، خراسان اور مکران فتح کئے۔ آپؓ کے دور خلافت کی چند نمایاں خصوصیات یہ بھی تھیں کہ آپؓ نے اپنے دور خلافت میں بیت المال یعنی خزانہ قائم کیا، عدالتیں قائم کرکے قاضی مقرر کئے، امیرالمومنین کا لقب اختیار کیا، فوجی دفتر ترتیب دیا، دفتر مال قائم کیا، مردم شماری کرائی، نہریں کھدوائیں، پیمائش کا نظام جاری کیا، شہر آباد کروائے، ممالک مفتوحہ کو صوبوں میں تقسیم کیا، پولیس کا محکمہ قائم کیا، جیل خانہ قائم کیا، جابجا فوجی چھائونیاں قائم کیں، مسافروں کیلئے مکانات تعمیر کروائے، مساجد میں امام اور موذن کی تنخواہیں مقرر کیں، آپؓ نے اپنے دور خلافت میں چھتیس سو علاقے فتح کئے، جن میں نو سو جامع مساجد اور چار ہزار عام مساجد تعمیر کروائیں۔
سیدنا فاروق اعظمؓ کی شان و شوکت اور فتوحات اسلامی سے باطل قوتیں پریشان تھیں۔ 27 ذی الحجہ 23 ہجری کو آپؓ حسب معمول نماز فجر کیلئے مسجد میں تشریف لائے اور نماز شروع کرائی، ابھی تکبیر تحریمہ ہی کہی تھی کہ ایک شخص ابولولو فیروز مجوسی ایرانی جو پہلے ہی سے زہر آلود خنجر لئے مسجد کے محراب میں چھپا ہوا تھا، اس نے خنجر کے تین وار آپ کے پیٹ پر کئے، جس سے آپ کو کافی گہرے زخم آئے، آپ بے ہوش ہو کر گرے، اس دوران قاتل کو پکڑنے کی کوشش میں مزید صحابہ کرامؓ زخمی ہو گئے، قاتل نے پکڑنے جانے کے خوف سے فوراً خود کشی کر لی۔ سیدنا فاروق اعظمؓ کے زخم ٹھیک نہ ہوئے اور یکم محرم الحرام کو 63 سال کی عمر میں آپؓ نے جام شہادت نوش کیا۔ آپؓ کا جنازہ حضرت صہیبؓ نے پڑھایا اور روضہ رسولؐ میں خلیفہ بلا فصل سیدنا صدیق اکبرؓ کے پہلو میں آپؓ کی تدفین ہوئی اور یوں دس سال چھ ماہ دس دن تک بائیس لاکھ مربع میل زمین پر نظام خلافت راشدہ کو جاری کرنے والے کا عہد ِ ساز دور اپنے اختتام کو پہنچا۔ یکم محرم الحرام ان کے یوم شہادت پر ان کی سیرت کو عام کرکے نوجوان نسل میں ایثار اور قربانی اور جرأت و بہادری کا وہ جذبہ پھر سے پیدا کیا جا سکتا ہے، جس کی بدولت مسلمان اپنا کھویا ہوا مقام پھر سے حاصل کر سکتے ہیں۔