سرفروش

قسط نمبر113
عباس ثاقب
یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جس نے نوجوانی کے امنگوں بھرے دور میں اپنی جان خطرے میں ڈال دی۔ صرف اس لئے کہ وطن عزیز پاکستان کو دشمنوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔ جمال صاحب کراچی کے قدیم رہائشی ہیں اور ان دنوں گمنامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ عمر کے آخری حصے میں بصد اصرار اس بات پر آمادہ ہوئے کہ اپنی زندگی کے تہلکہ خیز گوشوں سے پردہ اٹھائیں۔ ان کا اصل نام کچھ اور ہے۔ بعض نا گزیر اسباب کی بنا پر انہیں ’’جمال‘‘ کا فرضی نام دیا گیا ہے۔ اس کہانی کو ڈرامائی شکل دینے کیلئے کچھ زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی۔ کیونکہ یہ حقیقی ایڈوینچر کسی سنسنی خیز ناول سے زیادہ دلچسپ ہے۔ جمال صاحب کی کہانی ان لوگوں کیلئے دعوتِ فکر ہے، جنہیں یہ ملک بغیر کسی جد و جہد اور محنت کے ملا اور انہوں نے اس کی قدر کرنے کے بجائے اسی سے شکایات شروع کر دیں۔ امید ہے کہ قسط وار پیش کی جانے والی یہ کہانی ’’امت‘‘ کے خوش نظر قارئین کی پذیرائی حاصل کرے گی۔ (ادارہ)
سچن بھنڈاری کی گیدڑ بھپکی سن کر مجھے بے ساختہ ہنسی آگئی۔ ’’نہیں باس، مجھے نہیں پتا، تم بتادو، بڑی کرپا ہوگی، کون سی سزا ملے گی؟ عمر قید یا پھانسی؟ اچھا ایسا کرو، یہ پانچوں تصویریں اٹھاؤ اور تھانے جاکر شکایت درج کراؤ کہ تم اپنے مندر سمان گھر میں پوجا کر رہے تھے کہ ایک بدمعاش نے یہ تصویریں کھینچ کر تمہاری پوجا بھنگ کر دی‘‘۔
میری بات سن کر وہ چند لمحے کے لیے گم صم ہوکر رہ گیا۔ میں نے بات آگے بڑھائی۔ ’’بلکہ ایسا کرو کہ مجھے بھی ساتھ لے چلو، ورنہ بعد میں مجھے ڈھونڈنے میں مشکل پیش آ سکتی ہے۔ تم نیوی والوں کی تو پولیس بھی الگ ہوتی ہے ناں؟ اچھا ایسا کرتے ہیں کہ تمہارے آپریشنل آفیسر کموڈور نیل کنٹھ کرشنن کے پاس چلتے ہیں۔ وہ تمہاری بات ضرور غور سے سنے گا اور تم سے پورا انصاف کرے گا‘‘۔
میرے دیکھتے ہی دیکھتے اس کے چہرے نے کئی رنگ بدلے۔ وہ گہرے گہرے سانس لے رہا تھا، جیسے دم گھٹ رہا ہو۔ میں نے اسے سنبھلنے کا موقع دیئے بغیر بات جاری رکھی۔ ’’اگر ان سے بھی انصاف نہ ملے تو نیول ڈاکیارڈ کے سپرنٹنڈنٹ سورندر ناتھ کوہلی کے پاس فریاد لے کر چلیں گے۔ میں سوگند کھاتا ہوں کہ بھاگوں گا نہیں اور جو سزا وہ دونوں مہاشے سنائیں گے، چپ چاپ سوئیکار کرلوں گا‘‘۔
مجھے لگا کہ میری زبان سے نکلنے والے ہر لفظ کے ساتھ گویا اس کے غبارے سے ہوا نکلتی جارہی ہے۔ چنانچہ میں نے اسے بالکل پُھس کرنے کے لیے مزید کہا۔ ’’ارے! ان مہان ویکتیو (عظیم شخصیات) کو کشٹ (تکلیف) دینے کی کیا ضرورت؟ یہ ٹیلی فون رکھا ہے۔ ان کے نمبر ملاکر یہیں بلا لیتے ہیں۔ وہ یہیں آس پاس ہی کہیں رہتے ہوں گے‘‘۔
یہ کہہ کر میں نے بھارتی ناؤ سینا کے ان دونوں اعلیٰ افسران کے ٹیلیفون نمبر فرفر سنا دیئے۔
میں نے اس کی بگڑتی حالت سے لطف اندوز ہوتے ہوئے کہا۔ ’’یہ ٹھیک ہے، بس نمبر گھماؤ اور اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کا حال سنادو۔ ورنہ اتنے سینیئر افسروں کے پاس میری شکایت لے جانے سے پہلے تو تمہیں ان سے ملاقات کا وقت لینا پڑے گا۔ اچھا چھوڑو، یہ کام بھی میں کر دیتا ہوں۔ لیکن اگر انہوں نے تمہارے ساتھ پوجا میں شریک اس ستی ساوتری پجارن کا نام پوچھا تو کیا بتاؤں؟‘‘۔
اس نے ایک بار خود کو سنبھالنے اور پُراعتماد ظاہر کرنے کی کوشش کی، لیکن ناکام رہا۔ اس نے ہکلاتے ہوئے کہا۔ ’’دد… دیکھو… تم اچھا نہیں کر رہے۔ تمہیں اس… اس کا بھگتان بھرنا پڑے گا‘‘۔
میں نے اس کی دھمکی کو مکھی کی طرح اڑاتے ہوئے کہا۔ ’’اگر تم برا نہ مانو تو ان سینیئر آفیشیلز کو بتادوں کہ مہاشے سچن بھنڈاری ان دنوں دارو اور کباب کے ذریعے اپنی بیوی کی جدائی کا غم غلط کرتے ہیں اور اپنی تنہائی دور کرنے کے لیے بومبے کی مہنگی ترین ویشیا کامنی اسگاؤنکر کو اپنے شیانککش (بیڈ روم) کی مہمان بنایا کرتے ہیں۔ گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ تمہیں زیادہ سخت سزا نہیں بھگتنی پڑے گی۔ نوکری سے چھٹی اور پورے دیش میں ذلت و رسوائی!‘‘۔
میں نے اس کے جسم میں واضح لرزش محسوس کی۔ اس نے زبان کھولی تو آواز میں بھی لڑکھڑاہٹ نمایاں تھی۔ ’’تت… تم… کون ہو… اور میرے پیچھے… کک… کیوں پڑگئے ہو…؟‘‘۔ پھر وہ گویا کسی نتیجے پر پہنچ گیا۔ اس مرتبہ وہ بولا تو اس کے لہجے میں استحکام تھا۔ ’’بولو تمہیں زبان بند رکھنے کے لیے کتنی رقم چاہیے…؟ میں تمہارا ہر مطالبہ پورا کرنے کو تیار ہوں!‘‘۔
میں نے گمبھیر لہجے میں پوچھا۔ ’’ہر مطالبہ؟ ایک بار پھر سوچ لو!‘‘۔
اس نے قدرے جھنجلاکر کہا۔ ’’صاف صاف بولو، کتنے چاہئیں… پانچ ہزار… دس ہزار… بیس ہزار!‘‘۔
میں نے اس کے ذہنی انتشار سے لطف اندوز ہوتے ہوئے کہا۔ ’’یہ سمجھ لو کہ میرے پاس ایسی بہت ساری اتم رچنائیں (عظیم فن پارے) اور بھی ہیں۔ دھن دولت کی بات چھوڑو۔ بس یہ سمجھ لو کہ تمہیں میری ہر بات ماننی پڑے گی۔ ورنہ میں تمہارے سارے پاپ والے کرم تمہارے اوپر والوں تک پہنچا دوں گا۔ پھر تمہارا کیریئر نشٹ ہوجائے گا اور نوکری کے ساتھ یہ عالی شان گھر سے محروم ہو جاؤ گے‘‘۔
اس نے بے قرار لہجے میں کہا۔ ’’تم مجھے ڈرانا چھوڑو اور اپنی ڈیمانڈ بتاؤ۔ تم نے مجھے بہت بری طرح پھنسالیا ہے… اور میں نے گھور پاپ (گھناؤنا گناہ) کیا ہے…۔ مجھے پرائشچت تو کرنا ہی پڑے گا‘‘۔ میں نے کہا۔ ’’یہ بات ہوئی ناں… اب یہ بھی سمجھ لو کہ تمہارے پاس بچ نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ میرے اشاروں پر چلو، ورنہ تباہ و برباد ہونے کے لیے تیار ہو جاؤ‘‘۔ میں نے رک کر اسے گھورا۔ ’’ساتھ ہی یہ بھی سمجھ لو کہ مجھے غصہ بھی بہت جلدی آجاتا ہے۔ تم نے میری بات ماننے میں آنا کانی کی یا کوئی ہوشیاری کی تو…‘‘۔
میں نے اپنی بات ادھوری چھوڑ کر اچانک کمر کی جانب اڑسا ہوا ریوالور نکالا اور اس کی نال کا رخ سچن کی کھوپڑی کی طرف کر دیا۔ ’’مجھے تمہارا بھیجا نکالنے میں ذرا بھی دیر نہیں لگے گی‘‘۔ (جاری ہے)

Comments (0)
Add Comment