موت کے وقت حسن اور حسین قریب موجود تھے

امت رپورٹ
لندن کے ہارلے اسٹریٹ کلینک میں زیر علاج بیگم کلثوم نواز کی طبعیت اتوار اور پیر کی درمیانی شب اچانک بگڑ گئی تھی، جس پر انہیں دوبارہ وینٹی لیٹر پر منتقل کیا گیا۔ لندن میں موجود لیگی ذرائع کے مطابق ڈاکٹروں نے کلثوم نواز کی طبعیت دوبارہ تشویشناک ہونے کی اطلاع ان کے بیٹے حسین نواز کو دے دی تھی۔ جس پر خاندان کے لوگ فوری طور پر کلینک پہنچ گئے تھے۔ اس طرح سابق خاتون اول کی زندگی کے آخری لمحات میں ان کے دونوں بیٹے حسن اور حسین نواز، چھوٹی بیٹی اسما نواز، پوتے زید حسین نواز، سمدھی اسحاق ڈار اور دیگر قریبی عزیز اسپتال میں موجود تھے۔ تاہم دم رخصت کلثوم نواز کے سرہانے صرف حسن اور حسین تھے۔ ڈاکٹروں نے زیادہ لوگوں کو بیڈ کے قریب جانے کی اجازت نہیں دی۔ ذرائع کے مطابق چونکہ کلثوم نواز بے ہوش اور وینٹی لیٹر پر تھیں، لہٰذا انہیں علم نہیں تھا کہ آخری سفر پر روانہ ہوتے وقت ان کے پاس کون کون موجود ہے۔ دوسری جانب اپنی موت تک بیگم کلثوم نواز کو یہ علم بھی نہیں ہو سکا کہ ان کے شوہر، بیٹی اور داماد جیل میں ہیں۔ لندن میں موجود ایک لیگی عہدیدار کے بقول یہ سب کچھ بیگم صاحبہ سے اس لئے چھپایا جا رہا تھا کہ کہیں ان کو دوبارہ دل کا دورہ نہ پڑ جائے۔ لیکن تمام تر احتیاطی تدابیر اور ڈاکٹروں کی کوششوں کے باوجود بالآخر وہ دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ مسلم لیگ ’’ن‘‘ برطانیہ کے قائم مقام صدر عبدالشکور اور دیگر اوورسیز عہدیداران کلثوم نواز کی موت کے قریباً دو گھنٹے بعد ہارلے اسٹریٹ کلینک پہنچے۔ عبدالشکور نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ بیگم کلثوم کی موت برطانوی ٹائم کے مطابق دوپہر ساڑھے گیارہ بجے کے قریب واقع ہوئی۔ اس وقت پاکستان میں سہ پہر کے تقریباً ساڑھے تین بجے تھے۔ ذرائع کے بقول جب ڈاکٹروں نے کلثوم نواز کی موت کی تصدیق کر دی تو حسین نواز نے فوری طور پر اپنے چچا شہباز شریف کو فون کر کے آگاہ کیا، اور دیگر تفصیلات بتائیں۔
لندن میں موجود شریف فیملی کے خاندانی ذرائع نے بتایا کہ گزشتہ ماہ کے پہلے ہفتے میں جب پہلی بار کلثوم نواز ہوش میں آئیں تو ان کی طبعیت بتدریج بہتر ہو رہی تھی۔ حتیٰ کہ انہوں نے لوگوں پہچاننا شروع کر دیا تھا۔ جس پر ان کے بیٹے اور دیگر قریبی عزیزوں کو خاصی امید ہو چلی تھی کہ کلثوم نواز جلد مکمل صحت یاب ہو جائیں گی۔ ذرائع کے بقول سب کا خیال تھا کہ بیگم صاحبہ کو پوری طرح صحت یاب ہونے میں زیادہ سے زیادہ دو ماہ لگیں گے۔ وہ آنکھیں کھولتیں۔ لوگوں کو پہچانتیں اور نحیف آواز میں ہلکی پھلکی بات بھی کر لیتی تھیں۔ جبکہ ان کے جسمانی اعضا بھی معمولی حرکت کرنے لگے تھے۔ خاندانی ذرائع کے مطابق کلثوم نواز نے جب پہلی بار آنکھ کھولی تو حسن نواز، حسین نواز اور ان کا بیٹا زید حسین بیڈ کے نزدیک موجود تھے۔ کلثوم نواز نے نہ صرف ان تینوں کو پہچان لیا، بلکہ زید حسین نواز کا نام پکارنے کی کوشش بھی کی، جو ان کا چہیتا پوتا تھا۔ ذرائع کے بقول صرف تین روز پہلے تک کسی کو توقع نہیں تھی کہ بیگم کلثوم کی طبعیت دوبارہ تشویشناک ہو جائے گی اور انہیں پھر وینٹی لیٹر پر شفٹ کرنا پڑے گا۔
بیگم کلثوم نواز کی وفات کے بعد یہ سوال سب سے زیادہ زیر بحث ہے کہ ان کے دونوں صاحبزادے حسن اور حسین نواز بھی میت کے ساتھ پاکستان آئیں گے یا نہیں۔ لندن میں موجود شریف فیملی کے ذرائع کے مطابق حسن اور حسین نواز اگرچہ اپنی والدہ کی میت کے ساتھ پاکستان آنا چاہتے ہیں، تاہم قریبی عزیزوں نے انہیں روک دیا ہے۔ بالخصوص ان کے وکلا کا مشورہ ہے کہ دونوں کا پاکستان جانا رسکی ہو سکتا ہے۔ ان ذرائع کے مطابق اگرچہ حفاظتی ضمانت کرانے کے بعد حسن اور حسین نواز اپنی والدہ کی تدفین میں شرکت کے لئے پاکستان آ سکتے ہیں، لیکن تکنیکی پرابلم یہ ہے کہ دونوں کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل ہے۔ لہٰذا آنے کے بعد ان کی دوبارہ لندن واپسی ممکن نہیں ہوگی۔ اس تناظر میں دونوں کو پاکستان نہ جانے کا مشورہ دیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں خاندان کے لوگوں کے درمیان مشاورت کا سلسلہ جاری تھا۔ ’’امت‘‘ نے منگل کی شام سات بجے کے قریب لندن میں موجود حسین نواز کے پرسنل سیکریٹری وقار احمد سے رابطہ کیا تو انہوں نے اس ایشو پر زیادہ بات کرنے سے گریز کیا اور ان کا مختصر جواب تھا ’’اس بارے میں ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے‘‘۔ جبکہ میت کی پاکستان روانگی کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ فی الحال ڈاکومنٹیشن ہو رہی ہے۔ جس کے بعد ہی حتمی طور پر کچھ کہا جا سکے گا۔ نون لیگ کے ایک عہدیدار کے بقول اس بات کے امکانات کم ہیں کہ حسن اور حسین نواز میت کے ہمراہ پاکستان آئیں۔ اس عہدیدار کے مطابق لندن میں کلثوم نواز کی نماز جنازہ پڑھانے کا فیصلہ بھی اسی تناظر میں کیا گیا کہ حسن، حسین اور اسحاق ڈار پاکستان میں مطلوب ہیں، لہٰذا وہاں جانے کی پوزیشن میں نہیں اور پھر یہ کہ برطانیہ میں نواز شریف اور بیگم کلثوم نواز کے فالوورز کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ لندن میں نماز جنازہ ہونے کی صورت میں یہ سب بھی شرکت کر سکیں گے۔
برطانیہ کے معروف پاکستانی نژاد بیرسٹر امجد ملک، شریف خاندان کے خاصے قریب ہیں۔ مانچسٹر میں رہائش پذیر ہیں۔ تاہم لندن میں زیر علاج کلثوم نواز کی عیادت کے لئے کلینک بھی آتے رہے، جبکہ قریباً ہر دوسرے روز حسین نواز سے ان کی والدہ کی طبعیت کے بارے میں معلوم کیا کرتے تھے۔ ’’امت‘‘ کے رابطہ کرنے پر بیرسٹر امجد ملک نے بتایا کہ میت کو پاکستان بھیجنے میں دو تین روز کی تاخیر کا ایک سبب برطانوی قانون کا پروسس مکمل کرنا بھی ہے۔ برطانوی قانون کے مطابق جب کوئی طویل عرصے اسپتال میں زیر علاج رہنے کے بعد انتقال کر جائے تو اس کے لئے کورونر (Coroner) کی رپورٹ کے بعد ڈیتھ سرٹیفکیٹ جاری ہوتا ہے۔ کورونر ایک جوڈیشل مجسٹریٹ کا درجہ رکھتا ہے۔ جو کسی مریض کی موت کا تعین کرنے کے لئے ڈاکٹروں سے ’’کاز آف ڈیتھ‘‘ رپورٹ لیتا ہے۔ ڈاکٹر مریض کی بیماری، بیماری کی تشخیص اور اس کو دی جانے والی ادویات سے متعلق تمام میڈیکل ریکارڈ، رپورٹ کے ساتھ منسلک کر کے کورونر کو فراہم کرتا ہے۔ اگر کورونر مطمئن ہو جائے کہ موت قدرتی ہے تو پھر وہ نوٹیفکیشن جاری کر دیتا ہے۔ تاکہ لوکل کونسل میں موت کی رجسٹریشن کرانے کے بعد ڈیتھ سرٹیفکیٹ حاصل کیا جا سکے۔ بیرسٹر امجد ملک کے بقول کلثوم نواز کا ڈیتھ سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کے بعد اگلا مرحلہ میت کو پاکستان بھیجنے کے لئے سفری دستاویزات کا حصول ہے۔ ڈیتھ سرٹیفکیٹ کو پاکستانی ہائی کمیشن میں بھیجا جائے گا، جو سفری دستاویزات جاری کرے گا۔ اس کے بعد میت کے لئے تابوت کا بندوبست ہوگا اور ایئر لائن کا انتخاب کیا جائے گا۔ بیرسٹر امجد ملک کے مطابق اگرچہ شریف فیملی میں ابھی اس پر مشاورت ہو رہی ہے کہ میت کو کس ایئر لائن کے ذریعے پاکستان بھیجا جائے۔ تاہم برطانیہ میں مقیم پاکستانی عام طور پر اپنے عزیزوں کی میت بھیجنے کے لئے پی آئی اے کا انتخاب کرتے ہیں۔ کیونکہ پی آئی اے کی براہ راست پاکستان فلائٹ 8 گھنٹے کی ہے۔ اس کے برعکس اگر امارات ایئر لائن کا انتخاب کیا جائے تو وہ دبئی میں اسٹے کرتی ہے اور عموماً سفر میں 12 سے 13 گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں میت میں بو پیدا ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔ شریف خاندان سے اظہار تعزیت کرتے ہوئے بیرسٹر امجد ملک کا مزید کہنا تھا… ’’سیاست اپنی جگہ، لیکن اس وقت شریف خاندان صدمے سے دوچار ہے۔ لہٰذا حکومت کو اخلاقی اقدار اور اعلیٰ روایات کا خیال رکھنا ہو گا۔ نواز شریف اور مریم نواز کی اپیلیں اس وقت زیر التوا ہیں۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور ہیومن رائٹس کمیشن پاکستان کے تاحیات رکن کے طور پر میری درخواست ہے کہ اپیلیں بعد میں بھی سنی جا سکتی ہیں، تاہم اس نازک موقع پر نواز شریف کو ضمانت پر رہا کیا جائے تاکہ وہ تعزیت کے لئے آنے والوں سے خود مل سکیں۔ چہ جائیکہ انہیں ہتھکڑیاں لگا کر پیرول پر تدفین اور نماز جنازہ کے لئے لایا جائے اور پھر اسی حالت میں دوبارہ جیل پہنچا دیا جائے‘‘۔
ادھر بیگم کلثوم نواز کے انتقال پر مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے چیئرمین اور سینیٹ میں قائد حزب اختلاف راجہ محمد ظفر الحق کا کہنا ہے کہ ’’آج مجھے بہت دکھ ہے، کہ ایک ایسی پروقار اور دلیر سیاسی رہنما خاتون ہم سے بچھڑ گئی ہیں جنہوں نے بڑی جرأت اور حوصلے کے ساتھ مشکل ترین حالات میں سیاسی قیادت سنبھالی۔ ان کا مقابلہ ایک ڈکٹیٹر سے تھا۔ میں ان کے ساتھ اس جدوجہد میں شریک تھا۔ میں اس وقت کو بھلا نہیں سکتا جب ان کے خاندان کے تقریباً سبھی لوگ قید میں تھے۔ وہ خاندان کے لوگوں کو حوصلہ دینے والی خاتون تھیں۔ میاں نواز شریف پر کبھی اٹک جیل میں مقدمہ چلتا کبھی لانڈھی جیل کراچی میں۔ بیگم صاحبہ ہر سماعت کے وقت موجود رہتی تھیں۔ ان کے لئے یہ بڑا تکلیف دہ دور تھا۔ بجائے اس کے کہ ہم انہیں حوصلہ دیتے، وہ ہمیں حوصلہ دیا کرتی تھیں۔ پارٹی کے لئے رہنمائی کے فرائض انجام دیتیں۔ ان کے مزاج میں نرمی اور شرافت بھرپور طریقے سے موجود تھی۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے‘‘۔

Comments (0)
Add Comment