شاہ ایران شاہ عباس صفوی اپنی فتوحات سے اتنا مغرور و متکبر ہو گیا تھا کہ اس نے ہندوستان پر حملہ کرنے کے لیے بہانے ڈھونڈنے شروع کر دیئے۔ اس وقت ہندوستان پر اس کا ہمعصر نورالدین جہانگیر کا لڑکا اور جلال الدین اکبر کا پوتا اور ہمایوں بادشاہ کا پڑپوتا اور ابوالمظفر محی الدین اورنگزیب عالمگیرؒ کا باپ شہزادہ خرم ولد 1592ء شاہ جہان کے نام سے تخت نشین تھا۔
ایران کے بادشاہ شاہ عباس اول صفوی نے شاہ جہان کو یہ پیغام بھیجا کہ تم صرف شاہ ہند ہو۔ لیکن کہلاتے شاہ جہان ہو اور جہان میں میرا ملک ایران بھی ہے۔ لہٰذا تمہارا نام شاہ جہان اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ تم کسی وقت یہ کہہ کر ایران پر بھی قابض ہونا چاہتے ہو کہ میں شاہ جہاں (جہان کا بادشاہ) ہوں۔ اس لیے میں تمہیں صرف شاہ ہند (ہندوستان کا بادشاہ) تسلیم کرتا ہوں۔ شاہ جہان تسلیم نہیں کرتا۔ بایں وجہ میں تمہیں انتباہ و خبردار کرتا ہوں کہ آئندہ شاہ جہان کی جگہ صرف شاہ ہند کہلایا کرو اور اگر تم شاہ جہان کہلانے سے باز نہیں آتے تو پھر جنگ کے لیے تیار ہو جائو۔
یہ خط جب شاہ جہان کو ملا تو وہ گھبرا گیا ، کیونکہ شاہ عباس سے لڑنے میں کمزور تھا اور اپنا نام بدلنا توہین اور محکومی کو تسلیم کرنے کے مترادف تھا۔ اس لیے شاہ جہان نے اپنے تمام وزیروں کو اس کا کوئی معقول جواب لکھنے کے لیے حکم دے دیا اور جواب کے لیے ایک عرصہ اور ٹائم مقرر تھا اور اس وقت کے بعد جواب نہ ملنے کی صورت میں صرف جنگ ہی تھی۔ ادھر تمام وزرا معقول جواب سوچنے میں مصروف تھے۔ لیکن وقت بڑی تیزی سے گزرتا جارہا تھا اور کسی وزیر و مشیر کی سمجھ میں کوئی جواب نہ آرہا تھا۔
مولانا سعداللہ، پاکستانی گجرات کے قصبہ کنجاہ کے رہنے والے تھے۔ شاہ جہان کے علماء میں شامل تھے۔ جو وزیروں کے اتالیق و معلم بھی تھے۔ پہلے حضرت مولانا جس وزیر سے ملتے، وہ بڑے ادب و احترام سے پیش آتا تھا۔ لیکن ان ایام میں وزرا نے عزلت گزینی و تنہائی اختیار کر لی اور مولانا سے ملنا ملانا چھوڑ دیا تھا۔ (کیونکہ بادشاہ وقت پر ایک کڑی آزمائش آچکی تھی) مولانا ان کی پریشانی اور مصیبت کو بھانپ چکے تھے۔ آخر ایک دن مولانا نے وزرا سے اس پریشانی و حیرانی کی وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا کہ مولانا ہم آج کل ایک گورکھ دھندے اور پیچیدہ معاملہ میں پھنس چکے ہیں۔
مولانا نے ان سے کہا کیا معاملہ ہے، بتا دیجئے ہو سکتا ہے میں آپ کے کچھ کام آجائوں، ہر وزیر نے کہا حضرت مولانا یہ کام آپ کی طاقت سے باہر ہے۔ آخر جب جواب دینے میں بہت تھوڑے دن باقی رہ گئے تو بادشاہ سے وزرا نے کہا ہم سے جواب نہیں بن سکا، ہو سکتا ہے کہ مولانا سعد اس کا کوئی حل بتا دیں۔ شاہ جہان نے کہا کہ پھر مولانا کو سوال بتا کر اس کا جواب لکھنے کی درخواست کرو۔
دوسرے دن وزرا نے مولانا کو سوال بتا کر جواب لکھنے کے لیے کہا۔ مولانا نے جواب کو ایک شرط سے مشروط کر دیا کہ میں جواب لکھ کر بند کر دوں گا۔ اس کو شاہ ایران کے سوا کوئی اور شخص نہ پڑھے۔ اگر یہ منظور ہو تو میں لکھ دوں گا۔ ورنہ آپ جانیں اور آپ کا کام جانے۔ یہ بات جب شاہ جہان کے پاس پہنچی تو اس نے کہا جواب تو ہم سے بن نہ سکا اور نام بدلنے سے بھی ہم رہے، اس لیے مولانا کی شرط فی الفور قبول کر کے جواب لکھوا لو، تاکہ وہ جلد بھیج دیا جائے۔ چنانچہ حضرت مولانا نے جواب لکھ کر خط بند کر کے حکومت کو دے دیا۔
جب جواب فارس (موجودہ ایران) کے بادشاہ کو ملا تو اس کو لینے کے دینے پڑ گئے اور اس نے شاہ جہان سے معذرت کی اور ساتھ ہی یہ لکھا کہ جس آدمی نے یہ جواب دیا ہے، اسے ایران بھیج دیجئے ، تاکہ ہم بھی اس سے کچھ فائدہ اٹھائیں، اگر یہ نامنظور ہو تو پھر اسے کم از کم ایران کی سیر و سیاحت کے لیے ہی بھیج دیں۔ یہ جواب دیکھ کر شاہ جہان مولانا پر بڑا خوش ہوا اور مولانا سے عرض کیا جو کچھ آپ نے لکھا تھا، وہ ہمیں بھی بتا دیجئے۔ حضرت مولانا سعد کنجاہیؒ نے فرمایا: میں نے شاہ ایران، شاہ عباس صفوی کو لکھا تھا کہ شاہ جہان کو تم شاہ ہند تو تسلیم کر چکے ہو اور علم ابجد کے حساب سے شاہ ہند ہی شاہ جہان ہے۔ لہٰذا تم نے ایران پر جو غاصبانہ قبضہ کیا ہوا ہے، اسے جتنا جلد ہو سکے چھوڑ دو، ورنہ تمہاری خیر نہیں، علم ابجد کے حساب سے شاہ جہان اور شاہ ہند کے حروف کے عدد برابر ہیں۔ بغور ملاحظہ فرمائیں۔
شاہ ہند کے عدد۔
شاہ
ش، 300۔ الف، 1۔ ھ،5۔ ٹوٹل،30=5+1+300۔
ہند
ھ، 5۔ ن، 50۔ د، 4۔ ٹوٹل، 59=4+50+5۔
گویاشاہ ہندکے حروف کے عدد306+59کل 365ہوئے
شاہ جہاں کے عدد
شاہ۔ ش،300۔ الف، 1۔ ھ،5۔ 306=5+1+300
جہاں۔ ج،3۔ ھ،5۔ الف،1۔ ن،50۔ 59=50+1+5+3
شاہ جہان کے حروف کے عدد بھی 59+306 کل 365 ہوئے۔
لہٰذا معلوم ہوا کہ شاہ ہند ہی شاہ جہان ہے۔ اب خوب غور کرلو اے ایران کے بادشاہ درحقیقت شاہ ہند ہی شاہ جہان ہے جسے تم خود تسلیم کر چکے ہو، اس لیے تمہارا ایران پر حکومت کرنے کا کوئی جواز نہیں۔ شاہ جہان تم سے فوری جواب کا منتظر ہے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭