سیدنا خریم رضی اللہ عنہ کا دلچسپ واقعہ

سیدنا خریمؓ کی کنیت ابو یحییٰ تھی۔ آپؓ اس وقت اسلام لائے جب رسول اکرمؐ ہجرت کر کے مدینہ طیبہ تشریف لاچکے تھے۔ ان کے اسلام کا دلچسپ واقعہ خود ان کی زبانی سنئے۔
وہ بیان کرتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ اپنے اونٹوں کو لے کر نکلا۔ ان پر عراقہ کی دہشت طاری ہو گئی۔ میں نے ان کے چھندان ڈال دیا اور ایک کے بازو سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔ یہ آنحضرتؐ کی مدینہ طیبہ میں تشریف آوری کے وقت کا واقعہ ہے، پھر میں نے کہا اس وادی کے آسیب سے پناہ مانگتا ہوں، زمانہ جاہلیت میں ایسے مواقع پر لوگ ایسا ہی کہا کرتے تھے۔
اتنے میں ایک آواز نے مجھے آنحضرتؐ کے ظہور اور آپؐ کی تعلیمات کی اطلاع دی۔ میں نے یہ آواز سن کر پوچھا: خدا تم پر رحمت نازل فرمائے، تم کون ہو؟
جواب ملا: میں مالک بن مالک ہوں، مجھے رسول اقدسؐ نے نجد بھیجا تھا۔ میں نے کہا: اگر میرے اونٹوں کی حفاظت کی کوئی ذمہ داری لے لیتا تو میں رسول اقدسؐ کے پاس جاکر آپ پر ایمان لاتا۔
مالک نے کہا میں ذمہ دار ہوں، ان کو بحفاظت تمہارے گھر پہنچادوں گا۔ چنانچہ میں ان میں سے ایک اونٹ کھولا اور اس پر سوار ہوکر مدینہ منورہ آیا۔
میں ایسے وقت مدینہ پہنچا جب لوگ نماز جمعہ میں مشغول تھے۔ میں نے خیال کیا کہ لوگ نماز سے فارغ ہوجائیں تب میں مسجد میں جاؤں۔ یہ خیال کر کے اپنا اونٹ باندھنے جا رہا تھا کہ سیدنا ابوذرؓ آئے اور کہا کہ تمہیں رسول اقدسؐ بلاتے ہیں۔
میں مسجد میں داخل ہوا، مجھ کو دیکھتے ہی رسول اقدسؐ نے فرمایا تم کو معلوم ہے کہ جس نے تمہارے اونٹوں کو تمہارے گھر پہنچانے کی ذمہ داری لی تھی، اس نے کیا کیا؟ سنو! اس نے بحفاظت تمہارے اونٹوں کو منزل پر پہنچادیا ہے۔ میں نے کہا: خدا اس پر اپنی رحمت نازل فرمائے۔ آپؐ نے فرمایا ہاں ان پر خدا اپنی رحمت نازل فرمائے۔ اس کے بعد خریمؓ کلمہ شہادت پڑھ کر مسلمان ہوگئے۔ (مستدرک علی الصحیحین للحاکم، کتاب معرفۃ الصحابۃؓ ذکر خریم بن فاتک الاسدیؓ حدیث 6648)
حضورؐ سے محبت و اطاعت:
سیدنا خریمؓ رسول کریمؐ سے بے پناہ محبت کرتے اور اطاعت میں کوئی کسرنہ چھوڑتے تھے۔ آپ نہایت لطیف مزاج اور نفاست پسند تھے۔ لباس اور وضع قطع میںخوبصورتی اور نفاست کا بہت لحاظ رکھتے تھے۔ قبول اسلام سے پہلے تہبند لٹکا کر چلتے تھے اور لمبے لمبے گیسودوش پر لہرایا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ رسول اکرمؐ نے فرمایا: خریم کیا خوب آدمی ہیں، کاش اتنے لمبے بال نہ رکھتے اور تہبند یوں نیچے نہ لٹکاتے۔ آپؐ کا یہ ارشاد حضرت خریمؓ کے کانوں تک پہنچا تو خمدار اور لمبے گیسوکٹ کر صاف ہوگئے اور نیچا لٹکتا تہبند نصف پنڈلی تک آگیا۔ (سن ابوداؤد، کتاب اللباس باب ماجاء فی اسبال الازار)
رسول اکرمؐ کی معیت میں آپ بدر و أحد سمیت کئی غزوات میں شریک ہوئے۔ سیدنا فاروق اعظمؓ کے زمانے میں شام کی فتوحات میں بھی شریک رہے۔ جب کوفہ آباد ہوا تو وہاں قیام کرلیا تھا۔ بعدازاں ملک شام منتقل ہوگئے تھے اور یہیں سیدنا معاویہؓ کے دور میں وفات پائی۔ (سیرالصحابہ جلد چہارم، حصہ ششم و ہفتم، ص 306، دارالاشاعت کراچی)
آپ کی مشہور روایات حدیث:
حضرت خریم بن فاتکؓ سے روایت ہے کہ رسول کریمؐ نے فرمایا جو شخص راہ خدا میں ایک چیز خرچ کرتا ہے تو خداوند قدوس اس کے واسطے سات سوگنا اجر لکھ دیتے ہیں۔ (سنن ترمذی، کتاب الجہاد)
حضرت خریم بن فاتک اسدیؓ کہتے ہیں کہ ایک روز نبی اکرمؐ نے نماز صبح ادا فرمائی۔ سلام پھیر کر کھڑے ہوئے اور تین بار فرمایا جھوٹی گواہی خدا کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے مترادف ہے۔
پھر یہ آیت مبارک تلاوت فرمائی:
’’تم جھوٹی بات سے اجتناب کرو۔ خداکی طرف یکسو ہوجاؤ۔ اس کے ساتھ شرک کرنے والے نہ بنو۔‘‘ (سنن ابن ماجہ، کتاب الا حکام، باب شہادۃ الزور)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment