حضرت عمرؓ اپنی اولاد سے بے جا لاڈ پیار کے قائل نہ تھے۔ عامۃ المسلمین کے مقابلے میں ان سے کسی قسم کا ترجیحی سلوک روا نہیں رکھتے تھے۔ ایک بار جب انہوں نے لوگوں کو کسی بات سے روکنا چاہا تو اپنے اہل و عیال کے پاس گئے اور فرمایا کہ ’’میں کسی ایسے شخص کو نہیں جانتا، جسے میں نے کسی کام سے روکا ہو اور پھر اس نے وہی کام کیا ہو، سوائے اس شخص کے جسے سزا دینے میں مجھ سے کمزوری ظاہر ہوئی ہو۔
اے عمر کے گھرانے والو! اگر تم احکام کی خلاف ورزی کرو گے تو میں تمہیں دگنی سزا دوں گا، کیونکہ لوگوں کی نگاہیں تمہاری طرف لگی رہتی ہیں۔‘‘
ان کے صاحبزادے عبد الرحمن ابو شحمہؓ نے مصر کے جہاد کے دوران میں نشہ آور نبیذ پی۔ پھر خود ہی حاکم مصر حضرت عمروؓ بن العاص کے پاس پہنچ کر اقرار کیا اور اصرار کیا کہ ان پر حد جاری کی جائے۔ حضرت عمروؓ انہیں اپنے ساتھ گھر لائے اور ہلکے کوڑے لگائے۔ حالانکہ سزا برسر عام دی جانی چاہئے تھی۔ حضرت عمرؓ کو اطلاع پہنچ گئی۔ انہوں نے حضرت عمروؓ بن العاص کو سخت تہدیدی خط لکھا اور حضرت عبد الرحمنؓ کو مدینہ بلا کر اپنی موجودگی میں دوبارہ کوڑے لگوائے اور قید کر دیا۔ وہ پہلے ہی بیمار اور کمزور تھے۔ دوسری حد کی تاب نہ لا سکے۔ چند روز بیمار رہ کر انتقال کر گئے۔ ٭
٭٭٭٭٭