سورۃ القمر مکہ میں نازل ہوئی اور اس کی پچپن آیتیں ہیں اور تین رکوع۔ شروع خدا کے نام سے جو بے حد مہربان نہایت رحم والا ہے۔
پاس آ لگی قیامت اور پھٹ گیا چاند اور اگر وہ دیکھیں کوئی نشانی تو ٹلا جائیں اور کہیں یہ جادو ہے پہلے سے چلا آتا اور جھٹلایا اور چلے اپنی خوشی پر اور ہر کام ٹھہرا رکھا ہے وقت پر اور پہنچ چکے ہیں ان کے پاس احوال جن میں ڈانٹ ہو سکتی ہے، پوری عقل کی بات ہے، پھر ان میں کام نہیں کرتے ڈر سنانے والے، سو تو ہٹ آ ان کی طرف سے، جس دن پکارے پکارنے والا ایک ناگوار چیز کی طرف آنکھیں جھکائے نکل پڑیں قبروں سے جیسے ٹڈی پھیلی ہوئی دوڑتے جائیں، اس پکارنے والے کے پاس کہتے جائیں منکر یہ دن مشکل آیا۔
خلاصہ تفسیر
(ان کفار کے لئے زاجر یعنی غلطی پر متنبہ کرنے والا امر تو اعلیٰ درجے کا متحقق ہے، چنانچہ) قیامت نزدیک آ پہنچی (جس میں تکذیب پر بڑی مصیبت آوے گی اور اس اخبار قرب ساعت کا مصداق بھی واقع ہوگیا چنانچہ) چاند شق ہوگیا (اور اس سے قرب قیامت کی تصدیق اس طرح ہوتی ہے کہ شق قمر معجزہ ہے رسول اقدسؐ کا، جس سے آپؐ کی نبوت ثابت ہوتی ہے اور نبی کا ہر قول صادق ہے، اس لئے ضروری ہے کہ قیامت کے قریب آنے کی خبر جو آپؐ نے دی ہے وہ بھی صادق ہے، اس سے تحقق زاجر کا متعین ہوگیا) اور (اس کا مقتضا یہ تھا کہ) یہ لوگ (اس سے منزجر اور متاثر ہوتے، لیکن ان کی یہ حالت ہے کہ) اگر کوئی معجزہ دیکھتے ہیں تو ٹال دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ جادو ہے جو ابھی ختم ہوا جاتا ہے (یہ کہنا یہ ہے اس کے باطل ہونے سے کہ باطل کا اثر دیر تک قائم نہیں رہا کرتا، مطلب یہ کہ قرب قیامت سے نصیحت حاصل کرنا تو نبوت محمدیہؐ کے اعتقاد پر موقوف ہے، یہ لوگ خود اس کی دلیل ہی کو نظر تامل سے نہیں دیکھتے اور اس کو باطل سمجھتے ہیں تو پھر اس سے ان پر کیا اثر ہوتا) اور (اس اعراض اور بطلان دعویٰ معجزہ میں خود) ان لوگوں نے (باطل پر مصر ہو کر حق کو) جھٹلایا اور اپنی نفسانی خواہشوں کی پیروی کی (یعنی ان کا اعراض کسی دلیل صحیح کی وجہ سے نہیں ہے، بلکہ سبب اس اعراض کا ہوائے نفسانی کا اتباع اور از روئے عناد تکذیب حق ہے) (جاری ہے)
٭٭٭٭٭