لہروں کی تہہہ میں مانگی گئی دعا

شیخ ابراہیم الحازمی (استاذ کنگ سعود یونیورسٹی یونیورسٹی ریاض) نے لکھا ہے کہ ایک نوجوان تھا جسے سمندر سے عشق اور اس کی ہوا سے محبت تھی۔ اسی بناء پر اس نے ایک کشتی خریدی، تاکہ جتنا وقت ممکن ہو، سمندر میں گزارے اور اسے یہ محبت کیوں نہ ہوتی، جبکہ موجیں ایسا دلسوز نغمہ تھیں، سماعتیں جنہیں سننے کی ہمیشہ خواہش کرتی ہیں۔ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ لطف اندوز ہوا کرتا تھا۔ خدا تعالیٰ نے اس کے ساتھ خیر کا ارادہ کیا، کیوں کہ اس پر ایک مصیبت آ پڑی تھی، چنانچہ وہ کہتا ہے:
’’ایک دن میں اپنی کشتی کے ساتھ سمندر میں لہروں کا سفر تنہا طے کر رہا تھا۔ سورج غروب ہونے والا تھا، اس گھڑی سمندر میں تنہا رہنا مجھے بہت پسند تھا کہ میں ہوں اور میرے خواب اور بس، اور میں اپنا خوبصورت ترین وقت کشتیوں کے ہمراہ گزاروں، چنانچہ میں نیلے پانی پر اکیلا تھا کہ اچانک وہ کچھ ہوا جو میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا، میں نے دیکھا کہ کشتی اچانک میرے قابو سے باہر ہوگئی اور دوسرے ہی لمحے میں پانی کے درمیان لہروں اور موت دونوں سے بیک وقت جھگڑ رہا تھا۔
ایسے حالات میں میرے لیے نہ تو رب تعالیٰ کے سوا کوئی نجات دہندہ تھا اور نہ ہی میں کسی حفاظتی گھیرے کی مدد لے سکتا تھا۔ میں اپنی پوری قوت سے چلایا: ’’ اے میرے رب! مجھے بچا لے‘‘ یہ آواز میرے دل کی گہرائیوں سے نکلی تھی، میں خود پر قابو نہ رکھ سکا اور پھر میرا ہوش جاتا رہا۔
جب میں ہوش میں آیا اور میں نے نظریں دائیں بائیں گھمائیں تو میں نے اپنے اردگرد کافی سارے لوگوں کو جمع دیکھا، جو کہہ رہے تھے:
’’خدا تعالیٰ کا شکر ہے کہ یہ زندہ ہے، مرا نہیں۔‘‘ ان میں سے دو نے تیراکی کا لباس پہنا ہوا تھا۔ انہوں نے مجھ سے کہا: ’’شکر ہے خدا تعالیٰ کا جس نے تمہیں ڈوبنے سے بچا لیا، تم تو بالکل ہلاک ہی ہونے والے تھے، مگر حق تعالیٰ کا ارادہ تمہارے حق میں رحمت اور فضل کا ثابت ہوا۔‘‘
اس حادثے میں جو کچھ ہوا، مجھے کچھ بھی یاد نہ تھا، کیوں کہ میں خوف اور دہشت کی وجہ سے بے ہوشی میں تھا، بجز اس آواز کے جو میں نے اپنے رب کو دی تھی، میری نگاہوں میں ایک بار پھر دنیا گھوم گئی اور میں اپنے آپ سے کہنے لگا:
’’کیوں تو نے اپنے رب کو چھوڑ رکھا ہے؟ کیوں اس کی نافرمانی کرتا ہے؟‘‘
چنانچہ، یہ سب کچھ میرے ساتھ شیطان و نفس کے ماننے اور دنیا سے محبت کی وجہ سے ہوا، جنہوں نے مجھے رب تعالیٰ اور آخرت سے بے خبر کر رکھا تھا۔
سر چکرانے سے جب مجھے افاقہ ہوا تو میں نے حاضرین سے کہا: ’’کیا عشاء کا وقت شروع ہوگیا ہے؟‘‘
انہوں نے اثبات میں جواب دیا۔
میں حیرت زدہ سا کھڑا ہوگیا، وضو کیا اور نماز پڑھی۔ میں نے کہا: ’’حیرت ہے کیا واقعی میں نماز پڑھ رہا ہوں!‘‘ کیوں کہ میں نے اپنی زندگی میں بجز چند نمازوں کے کبھی نماز نہ پڑھی تھی۔ اس کے باوجود میرے رب نے مجھ پر رحم کیا اور مجھے موت سے بچا لیا، جو میرے سر پر منڈلا رہی تھی، کیا وہی رب میری شکر گزاری کا مستحق نہیں ہے؟
میں نے اپنے رب سے عہد کر لیا ہے کہ میں اب کبھی اس کی نافرمانی نہ کروں گا اور اگر شیطان نے میرے قدم ڈگمگا بھی دیئے تو میں اپنے رب سے معافی مانگ لوں گا، بے شک وہ بڑا مغفرت کرنے والا رحمت کرنے والا ہے۔
میں نے اب سچی توبہ کر لی ہے، کیوں کہ رب تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ سے خوش ہوتا ہے، چاہے اس کے گناہ آسمان کی بلندیوں تک چلے جائیں۔
اس نوجوان کی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے تھے۔ اس نے اپنے اردگرد موجود لوگوں کو بھی رلا دیا، یہاں تک کہ روتے روتے اسے صبح ہوگئی۔ (راحت پانے والے۔ مولف شیخ ابراہیم الحازمی، استاذ کنگ سعود یونیورسٹی یونیورسٹی ریاض)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment