آخری وقت حضرت فاروق اعظمؓ کے نامور صاحبزادے حضرت ابن عمرؓ آپ کے سرہانے بیٹھے تھے۔ ان سے فرمایا کہ ام المومنین عائشہؓ کے پاس جائو اور ان سے کہو کہ عمرؓ سلام عرض کرتا ہے، عمر ہی کہنا، امیر المومنین نہ کہنا، کیونکہ میں آج ان کا امیر نہیں ہوں۔ سلام کے بعد کہنا کہ عمر آپ سے اجازت چاہتا ہے کہ اسے اپنے دونوں دوستوں (رسول اکرمؐ اور حضرت ابو بکرؓ) کے پہلو میں دفن کیا جائے۔ حضرت ابن عمرؓ جب حضرت صدیقہؓ کی خدمت میں پہنچے تو وہ رو رہی تھیں۔ انہوں نے حضرت عمرؓ کا سلام اور پیغام پہنچایا۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ نے فرمایا کہ ’’اس جگہ کو میں اپنے لیے محفوظ رکھنا چاہتی تھی، لیکن آج میں عمرؓ کو اپنے اوپر ترجیح دوں گی۔‘‘ حضرت ابن عمرؓ نے واپس آ کر حضرت عمرؓ کو بتایا کہ ام المومنین حضرت عائشہؓ نے اجازت دے دی ہے۔ فرمایا کہ ’’یہی میری سب سے بڑی آرزو تھی۔ اس خواب گاہ سے اہم تر میرے نزدیک کوئی چیز نہ تھی۔ ‘‘
اے میرے بیٹے! جب میںمر جائوں تو میرا تابوت اٹھا کر حضرت عائشہؓ کے دروازے پر لے جانا اور ایک دفعہ پھر اجازت مانگنا، کیونکہ ہو سکتا ہے کہ میرے جیتے جی مجھے ہنوز امیر المومنین سمجھ کر شرم و لحاظ سے اجازت دے دی ہو، اگر وہ دوبارہ اجازت دے دیں تو مجھے اندر لے جانا۔ اگر اجازت نہ دیں تو مجھے عام مسلمانوں کے قبرستان (جنت البقیع) میں دفن کر دینا۔‘‘
حضرت عمرؓ نے اپنے اہل خانہ کو تاکید فرمائی کہ ان کی تجہیز و تکفین سادگی سے عمل میں لائی جائے، انہیں مشک سے غسل نہ دیا جائے، بلکہ پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دیا جائے۔ کفن معمولی کپڑے کا ہو۔ ’’اگر خدا کے نزدیک مجھ میں کوئی بھلائی ہو گی تو وہ اسے اچھے لباس سے بدل دے گا اور اگر میں اس کے بر عکس ہوا تو ہ بھی مجھ سے چھین لے گا۔ قبر بھی معمولی ہونی چاہیے۔ عورتیں جنازے کے ساتھ نہ چلیں اور میرے لیے وہ باتیں نہ کہی جائیں، جو مجھ میں نہیں ہیں۔ اس لیے کہ خدا مجھے تم سب سے زیادہ جانتا ہے۔ میرا جنازہ لے کر تیز قدموں سے چلنا، کیونکہ اگر خدا کے نزدیک مجھ میں کوئی بھلائی ہے تو تم مجھے اس جگہ جلدی پہنچا دو گے جو میرے لیے زیادہ بہتر ہے اور اگر میں اس کے برعکس ہوں تو تم اپنے کندھوں سے وہ برائی جلدی اتار پھینکو گے جو تم اٹھائے ہوئے ہو گے۔‘‘
’’افسوس ہے مجھ پر اور میری ماں پر اگر خدا نے مجھے معاف نہ کیا۔‘‘
حضرت فاروق اعظمؓ یہ فقرہ دہراتے رہے، حتیٰ کہ آپؓ کی روح اپنے خالق حقیقی کی طرف پرواز کر گئی۔ راویوں کی اکثریت کا بیان ہے کہ حضرت عمرؓ 26 ذی الحجہ 23 ہجری کو بدھ کے دن زخمی ہوئے، تین دن زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہے۔ یکم محرم 24 ہجری کو اتوار کے دن دفنائے گئے۔ ان کے زخمی ہونے کے بعد ان کے حکم سے حضرت صہیبؓ بن سنان رومی مسلمانوں کو نماز پڑھاتے رہے تھے۔ انہوں نے ہی آپؓ کی نماز جنازہ پڑھائی۔ حضرت علیؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت زبیرؓ، حضرت سعدؓ بن ابی وقاص، حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف نے قبر میں اتارا۔ حضرت ابوبکرؓ کا سر حضور اکرمؐ کے شانہ مباک کے برابر رکھا گیا تھا۔ حضرت عمرؓ کا سر شانہ صدیقؓ کے برابر رکھا گیا۔
یوں حضرت عائشہ صدیقہؓ کے خواب کا تیسرا چاند ان کے گھر میں اتر گیا۔
شاعر رسولؐ حضرت حسان ؓ بن ثابت نے مرثیہ لکھا اور کیا خوب کہا:
ترجمہ: وہ تینوں زندگی میں بھی جدا نہیں ہوئے اور موت کے بعد پھر قبر میں اکٹھے ہوگئے۔
میؤر جیسا متعصب مستشرق بھی ایک احساس درد مندی کے ساتھ یہ لکھے بغیر نہ رہ سکا کہ ’’اگر ایک مسلم مؤرخ عمرؓ جیسے طاقتور، بے لوث، کھرے اور مخلص خلیفہ کو الوداع کہتے ہوئے آہ سرد کھینچے تو بالکل بجا ہوگا۔‘‘
(بحوالہ: عشرہ مبشرہ)
٭٭٭٭٭