نظام دکن میوزیم کے خفیہ کیمرے نے چور پکڑوا دیئے

سدھارتھ شری واستو
نظام دکن میوزیم کے ایک خفیہ کیمرے نے نظام الملک دکن آصف جاہ ہفتم کے زیر استعمال قیمتی نوادرات چرانے والے ملزمان پکڑوا دیئے۔ غوث پاشا المعروف خونی پاشا اور اس کا دیرینہ دوست مبین طلائی اور ہیروں سمیت قیمتی پتھروں سے مزین نوادارت بیچنے کیلئے ممبئی چلے گئے تھے، جہاں انہیں فائیو اسٹار ہوٹل میں قیام کے باوجود عالمی گاہک کا نہ ملا۔ حیدر آباد واپسی پر اولڈ سٹی پولیس کی درجن بھر تفتیشی ٹیموں نے دونوں چوروں کو گرفتار کرلیا اور مسروقہ تمام سامان بر آمد کرلیا۔ ہائی پروفائل چوری کے دونوں ملزمان غوث اور مبین نے صحافیوں کے روبرو تسلیم کیا ہے کہ میوزیم میں قیمتی اشیا کی سرقہ کی واردات انہوں نے کی۔ ملزمان نے اعترافی کیا کہ نظام حیدرآباد دکن کے تاریخی مجلد طلائی قرآنی نسخے کو چرانے کا بھی فیصلہ کیا تھا، لیکن اس قرآن کو جیسے ہی ہاتھ لگایا تو نامعلوم سمت سے آنے والے اذان کی آواز نے ان پر ہیبت طاری کردی، جس کے بعد وہ گھبراہٹ میں بھاگ نکلے اور ان کے دل پر قرآن پاک کی بے حرمتی اس قدر غالب ہوئی کہ انہیں ایک پل قرار نہ آیا۔ حیدرآباد پولیس کی ایک پریس کانفرنس میں موجود دونوں نوجوانوں نے اعتراف کیا ہے کہ وہ نظام دکن آصف جاہ ہفتم کا سامان چرا کر عالمی خریداروں کو بیچنا چاہتے تھے اور اس کام کیلئے انہوں نے تمام قیمتی ساز و سامان کو حیدر آباد میں اپنے محفوظ گھر میں رکھ دیا تھا اور خود عالمی گاہکوں کی تلاش میں ممبئی آکر ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں تین دن تک اس اُمید پر قیام پذیر بھی رہے تھے کہ شاید ان کو کوئی غیر ملکی یا متمول بھارتی گاہک ہی مل جائے جو اس سامان کے ان کو دو چار کروڑ ادا کر دے تو وہ اس سرقہ کی رقم سے اپنا کاروبار کھول لیں گے، لیکن فائیو اسٹار ہوٹل میں قیام کے دوران ان کے دل کی تمنا پوری نہیں ہوئی اور وہ دل گرفتہ ہوکر واپس حیدر آباد پہنچے، جہاں ان کی گرفتاری کیلئے مقامی پولیس جال بچھا کر بیٹھی ہوئی تھی کیونکہ وہ جس موٹر سائیکل پر پرانے شہر میں واقع نظام میوزیم سے طلائی اور قیمتی تاریخی سامان چرا کر بھاگے تھے، اس کا نمبر ہائی ریزیولیوشن کیمرے نے پولیس تفتیش کاروں کے سامنے ظاہرکردیا تھا اور پولیس نے اس سلسلہ میں ان کو گرفتار کرنے کیلئے مقامی موٹر رجسٹریشن سسٹم سے مدد لے کر ان دونوں چوروں کا پتا چلا لیا تھا لیکن یہ دونوں چور اس وقت حیدر آمد میں نہیں تھے اور ممبئی کے ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں تاریخی مسروقہ ساز و سامان کی من چاہی قیمت کی ادائیگی کیلئے عالمی گاہکوں کی تلاش میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ پولیس کو دیئے جانے والے اپنے اعترافی بیان میں پرانے شہر حیدر آباد کے دونوں مقامی نوجوانوں غوث اور مبین نے اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے اس تاریخی ساز و سامان کی چوری کیلئے چار ماہ تک ریکی کی تھی اور اس سلسلہ میں انہوں نے پرانی حویلی میوزیم کی نگرانی کرنے والے تمام کیمروں کی تاریں کاٹ دی تھیں تاکہ یہ کیمرے ان کی آمد اور فرار کی ویڈیوز نہ بنا سکیں، لیکن چوروںکی بد قسمتی تھی کہ انہوں نے 32 کیمروں کی ریکارڈنگ مکمل طور پر بند کردی تھی لیکن ایک خفیہ ہائی ریزیولیوشن کیمرے کو بند کرنا بھول گئے تھے، جو پولیس کی جانب سے حال ہی میں ایک مقام پر نصب کیا گیا تھا۔ ترجمان پولیس کا دعویٰ ہے کہ تفتیشی ٹیموں کو اس سلسلہ میں بڑی مشکلات کا سامنا تھا، کیونکہ تمام 32 کیمرے بند تھے جس کی وجہ سے چوروں کو ٹریس کرنا مشکل تھا لیکن واحد کیمرے نے ان کی یہ مشکل حل کردی اور ایک موٹر سائیکل پر دو افراد کو واردات کی شب بھاگتے ریکارڈ کیا گیا اور ان کی موٹر سائیکل کی پہچان کی گئی اور شہر میں کئی مقامات پر اسٹریٹ پولیس ڈیپارٹمنٹ کے کیمروں کی مدد سے ان چوروں کے فرار کی تصدیق ہوئی جس سے ان کی تلاش میں کافی مدد ملی۔ ادھر چوروں کا ماننا ہے کہ ان کی بد قسمتی تھی کہ انہوں نے طلائی اور ہیروں و جواہرات سے مزین ناشتہ دان، چائے سیٹ اور چمچوں کی چوری کی تکمیل کے بعد برابر کے باکس میں موجود ایک طلائی قرآن الکریم کا نسخہ بھی چوری کرنے کا فوری ارادہ کیا لیکن جیسے ہی ہم نے اس باکس کو توڑنے کے بعد اس تاریخی اور طلائی مقدس قرآنی نسخہ کو اُٹھانے کیلئے ہاتھ بڑھایا تو اسی وقت کسی مسجد میں سے اذان کی آواز گونجنے لگی جس سے ہم بہت زیادہ گھبرا گئے اور اس طلائی نسخہ قرآنی کو اُٹھائے بغیر بھاگ نکلے۔ ہمیں اب اندازہ ہوا ہے کہ ہمارے اوپر قرآن کی چوری کی کوشش بھاری پڑی ہے، جس پر ہم بے حد شرمندہ ہیں۔ حیدر آباد پولیس کمشنر انجنی کمار نے انکشاف کیا ہے کہ دونوں ملزمان نے نظام دکن آصف جاہ ہفتم کے طلائی اور چار کلو گرام سے زیادہ وزن کے حامل ناشتہ دان سمیت تمام ساز و سامان کو راجندر نگر کے علاقہ میں ایک فارم ہائوس کے پاس زمین میں گڑھا کھود کر دفن کردیا تھا اور ممبئی کے فائیو اسٹار ہوٹل میں عالمی قدردانوں کی تلاش میں نکل پڑے تھے لیکن جب ان کو تاریخی ا ور مسروقہ سامان کا کوئی مطلب کا گاہک نہیں ملا تو دونوں مایوس ہوکر واپس حیدر آباد پہنچے اور راجندر نگر میں ایک کمین گاہ میں جاکر ٹھہرے جہاں زمین سے طلائی ناشتہ دان نکال کر رکھا اور بازار سے کھانا خرید کر اسی ناشتہ دان میں رکھا۔ غوث اور مبین کا ماننا تھا کہ دونوں نے راجندر نگر کی کمین گاہ پر دستر خوان پر طلائی اور تاریخی ناشتہ دان میں کھانا رکھ کر اس اُمید پر کھایا کہ شاید ان کو آئندہ سونے چاندی اور جواہرات والے برتنوں میں کھانا کھانے کا ایسا نادر موقع نہیں ملے گا۔ واضح رہے کہ ایک مرکزی ملزم غوث پاشا عادی مجرم اور شاطر چور ہے اور 16 مقدمات میں بھارتی پولیس کو مطلوب تھا، جبکہ وہ اپنے دوست مبین کے ساتھ سعودی عرب میں بھی ایک پاکستانی شہری کو مار مار کر لہو لہان کرنے کی واردات میں سزا یافتہ ہے، جس کے بعد سعودی حکام نے غوث پاشا کو مبین کے ساتھ ڈی پورٹ کردیا تھا، جس نے حیدر آباد پہنچ کر اپنی مذموم مجرمانہ سرگرمیوں کو بڑھاوا دیا اور پرانی حویلی میں قائم نظام دکن میوزیم میں سائنٹیفک بنیادوں پر ہائی پروفائل چوری کا پروگرام طے کیا، لیکن پکڑے گئے۔ ٭
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment