مولانا سعد کنجاہیؒ کو شاہ ایران کی دعوت پر ایک وفد کی صورت میں شاہ جہان نے ایران بھیج دیا اور وہاں سے بے حد و حساب تحائف جو شاہ ایران نے معافی تلافی کی صورت میں دینے تھے، دیئے۔ آپ جب واپس تشریف لائے تو شاہ جہان ترجیحی طور پر انہیں ایک اہم وزارت دینا چاہتا تھا، لیکن ایسا نہ ہو سکا۔
تو آخرکار انہیں ملک کے تمام مرغی خانوں کا وزیر بنا دیا۔ آپ نے مرغی خانوں کا قلم دان سنبھالتے ہی یہ حکم کر دیا کہ جو لاکھوں من غلہ مرغی خانوں کے لیے لیا جاتا تھا، وہ آج سے بند کر دیا جائے اور ملک کے قریہ قریہ، شہر بہ شہر، یہ فرمان جاری کر دیا کہ تمام پس خوردہ اور تہہ دیگی کھرچن اور اُلش (امیروں کا بچا ہوا کھانا) آٹے کا نتھارن یعنی چھان بور وغیرہ جمع رکھا جائے اور دم دیگی وغیرہ بھی ضائع نہ کیا جائے اور مرغی خانے کا ملازم جب آئے تو اکٹھا کر کے اسے دے دیا جائے۔ چنانچہ مرغیوں کی خوراک پورے ملک سے اس طرح جمع کر کے استعمال ہونے لگی۔ کچھ عرصے کے بعد شاہ جہان، بادشاہ جب معائنہ اور جانچ پڑتال کے لیے آیا تو کارکردگی کا طور طریق دیکھ کر اس نے سوچا کہ مولانا صاحب نے دانہ دنکا تو حکومت سے لیا نہیں، لہٰذا مرغیاں مر گل گئیں ہوں گی۔ لیکن ہر جگہ جب مرغیاں اور انڈے دیکھے تو وہ پہلے سے کئی گنا بہتر اور زیادہ بھی تھیں۔ تفصیل معلوم کر کے بادشاہ حضرت مولانا کنجاہیؒ پر بہت خوش ہوا۔ اس کے بعد اس نے مولانا کو وزیر خزانہ مقرر کر دیا اور انہوں نے محکمہ مال کی بھی اصلاح کر کے اسے مثالی بنا دیا۔ ایک دفعہ ایک پٹوار خانے کی درخواست پر تالے کے لیے چار آنے دیئے گئے۔ لیکن درج نہ ہو سکے۔ اب سالانہ بچت خرچ کا ملکی حساب قوم کو بتانا تھا۔
اس لیے مولانا نے دن رات ایک کر کے سالانہ بجٹ کو تیار کر دیا۔ لیکن وہ تالے والے چار آنے غائب تھے۔ ایک دن رات کے وقت شاہ جہان نے اہلکار بھیجے کہ مولانا کو کہو کہ جس حال میں بھی ہیں فوراً مجھے ملیں، آپ ایک تختہ پر بیٹھے تھے کہ پیغام ملنے پر آپ نے اہلکاروں سے کہا کہ مجھے بمعہ اس تختہ کے اٹھا کے لے چلو۔ چنانچہ اہلکاروں نے آپ کو مع تختہ کے اٹھا کر حاضر کیا۔ بادشاہ نے یہ منظر دیکھ کر پوچھا: مولانا یہ کیا ہے؟ آپ نے جواب دیا کہ آپ نے حکم بھیجا تھا کہ جس حالت میں بھی ہو، فوراً حاضری دو، اس لیے میں حسب حکم حاضر ہوں۔ شاہ جہان نے کہا آپ کا حساب مکمل نہیں ہوا جو آدھی رات کو بھی آپ مصروف ہیں؟ فرمایا حساب تو مکمل ہے، لیکن چار آنے میں نے کہیں دیئے تھے، مگر یہ پتہ نہیں چلتا کہ وہ کہاں خرچ ہوئے تھے۔ بادشاہ نے کہا چار آنے کی کوئی بات نہیں، انہیں رہنے دیں۔ آپؒ نے فرمایا پھر بچت میں جمع و خرچ کا حساب نامکمل رہے گا، شاہ جہان سے بات کرنے کے بعد ان اہلکاروں سے کہا کہ مجھے حسب سابق واپس چھوڑ آئو، چنانچہ انہوں نے مع تخت و کتب و کاغذات وغیرہ کے اٹھا کر آپ کو گھر پہنچا دیا۔ گھر پہنچ کر آپ کو یاد آگیا کہ فلاں پٹوار خانہ کے تالے کے لیے چار آنے دیئے تھے۔
سبق: قارئین کرام: دیکھئے علم دین کی برکت و کامیابی کہ جس عقدہ اور مشکل مسئلہ کو وزرا مل کر بھی حل نہ کر سکے، اسے قرآن اور سنت رسولؐ کے ایک عالم نے کس خوش اسلوبی اور احسن طریقے سے فی الفور حل کر دیا اور پھر امور وزارت کو کس قدر عمدہ طریقے سے چلایا کہ دوسروں کے عقل و شعور وہاں تک پہنچ ہی نہ سکے تھے اور مسلمانوں کے لیے ایک بہترین نمونہ پیش کیا۔ حضرت مولانا کی حسن کارکردگی و دیانت داری اور ایمانداری کا اندازہ فرمایئے کہ مرغیوں کا دانہ بدل دینے سے ملک کو کتنا فائدہ ہوا۔ انسانی خوراک کی جگہ مرغیوں کو دوسری صحیح خوراک دے کر لاکھوں ٹن غلہ بچا کر ملک کی اقتصادی معاشی حالت کو کتنا مضبوط کر دیا۔ آج جانوروں کی ہڈیوں سے کئی کام لیے جاتے ہیں۔ مگر اس وقت کی دنیا اس سے ناآشنا تھی، لیکن حضرت علامہ سعدؒ نے ہڈیاں بھی ضائع نہ ہونے دیں۔ انہوں نے ان کو بھی کوٹ پیس کر مرغیوں کی خوراک کا ایک حصہ بنا دیا۔
(بحوالہ فلسفہ سیرت خاتم الانبیاءؐ ص 62 تا 65 از سید تصدق بخاری صاحب)
٭٭٭٭٭