سرفروش

عباس ثاقب
میرا طنز سن کر سچن بھنڈاری بری طرح تلملایا، لیکن پھر بے بسی سے سر جھکا کر رہ گیا۔ میں نے اس کی رہی سہی مزاحمت توڑنے کے لیے اگلی چال چلی۔ ’’یار مجھے تو یاد ہی نہیں رہا۔ تمہارے کارناموں کے فوٹو گرافس کا پیکٹ احمد آباد پہنچنے میں تو کئی دن لگ جائیں گے۔ ان یادگار لمحوں کی تصویری کہانی جلد از جلد شریمتی آرتی دیوی کی نظروں کے سامنے پیش کرنے کا ایک آسان طریقہ بھی تو ہے۔ تم یہیں بیٹھو، میں ٹیلیفون پر تمہاری سسرال کا نمبر ملاکر تھوڑی سی تفصیل تمہارے گھر کی سرسوتی کو بتاتا ہوں۔ وہ ایک منٹ ضائع کیے بغیر دوڑی چلے آئے گی۔ اس کے بعد تم خود اس کے سارے سوالوں کے جواب دے دینا‘‘۔
مجھے یہ سمجھنے میں ذرا بھی دیر نہ لگی کہ تیر نشانے پر بیٹھا ہے اور اس کی رہی سہی مزاحمت ٹوٹنے میں بھی اب زیادہ دیر نہیں لگے گی۔
کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد اس نے سوال کیا، یا شاید اپنا خیال ظاہر کیا۔ ’’تو تم پاکستانی ایجنٹ ہو؟‘‘۔ اس کے لہجے میں ہلکی سی لرزش تھی۔
میں نے شانے اچکائے۔ ’’اگر تم یہ سمجھتے ہو، سمجھتے رہو، مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میں صرف اتنا کہوں گا کہ میں تمہارے دیش کو نقصان پہنچانے کے لیے نہیں، بلکہ اپنے دیش کے بچاؤ کے لیے یہ معلومات حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ یہ ایک دیش پریمی کے طور پر میری مجبوری ہے۔ ورنہ میری تمہاری کوئی ذاتی دشمنی تو نہیں ہے‘‘۔
پتا نہیں میری بات نے اس پر کتنا اثر کیا، لیکن وہ گہری سوچ میں ضرور دکھائی دیا۔ میں نے اس کی ذہنی کیفیت بھانپنے کے لیے بات آگے بڑھائی۔ ’’تم مانو یا نہ مانو، لیکن مجھے تمہارا تباہ ہوتے اور دفتری ساتھیوں میں تمہیں ذلیل و رسوا ہوتے دیکھ کر یا تمہارا پریوارک جیون (خاندانی زندگی) کی برباد ی پر کوئی خوشی نہیں ہوگی۔ لیکن تم سے یہ کام لینا میری مجبوری ہے۔ اور اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے مجھے جو کچھ بھی کرنا پڑا، میں ضرور کروں گا‘‘۔
وہ میری بات سن کر کچھ دیر خاموش بیٹھا رہا۔ پھر اس نے تھکے تھکے لہجے میں کہا۔ ’’تم اپنا کام نکال کر چلے جاؤ گے، پرنتو بعد میں کوئی میری مجبوری نہیں مانے گا۔ مجھے تو اب ہر حال میں تباہ ہونا ہی ہے‘‘۔
میں نے ہمدردانہ لہجے میں اسے تسلی دی۔ ’’ایسا نہیں ہے۔ اگر تم میری ہدایت کے مطابق کام کرو گے تو تمہاری زندگی برباد نہیں ہوگی۔ تمہاری نوکری عزت کے ساتھ چلتی رہے گی اور تم اپنی مرضی کے مطابق ریٹائرمنٹ لے کر زندگی بھر پنشن پر عیش کرنا۔ جب کہ تمہاری پتنی کو بھی اس سارے معاملے کی کانوں کان خبر نہیں ہوگی‘‘۔
وہ کچھ دیر چپ چاپ گویا میری بات کو تولتا رہا۔ میں نے اس کے ذہنی تناؤ میں مزید کمی کرنے کی ایک کوشش کے طور پر کہا۔ ’’دیکھو مسٹر سچن ، جہاں تک تمہارے اپنے دیش سے پریم کا سوال ہے، تم جانتے ہو کہ آئی این ایس وکرانت اتنا شکتی شالی ہے کہ اسے تباہ کرنے کا خیال ہی بے وقوفی ہے۔ تم جو معلومات مجھے دو گے، اس سے اس کی رکھشا یا سرکھشا پر کوئی آنچ نہیں آئے گی۔ میں قسم کھاتا ہوں کہ اپنا کام پورا ہوتے ہی میں تمام تصویروں اور ان کے نیگیٹیوز کو تمہارے حوالے کر کے تمہاری زندگی سے ہمیشہ کے لیے نکل جاؤں گا‘‘۔
وہ ایک بار پھر سوچ میں گم ہوگیا، البتہ اس بار اس نے واپسی میں دیر نہیں لگائی۔ ’’تم مجھ سے وکرانت کے بارے میں کیا کیا جان کاری چاہتے ہو؟ میں تمہیں صاف بتادوں کہ میرے دفتر میں کسی بھی ڈاکومنٹ کی کاپی بنانے کی گتیویدھی (سرگرمی) فوراً نظروں میں آجائے گی‘‘۔
میں نے اسے راستے پر آتے دیکھ کر دل میں ابھرنے والا خوشی کا طوفان دباتے ہوئے ہمدردانہ لہجے میں کہا۔ ’’مجھے تمہاری مشکل کا اندازہ ہے، لیکن فکر نہ کرو۔ میں تمہیں ایساطریقہ سمجھاؤں گا کہ میرا کام بھی ہو جائے گا اور کسی کو تمہاری کارروائی کی کانوں کان خبر بھی نہیں ہوگی‘‘۔
اس نے یقین سے عاری نظروں سے میری طرف دیکھا۔ میں نے پوچھا۔ ’’یہ بتاؤ وکرانت سے متعلق ریکارڈ کی تمام فائلیں تمہاری پہنچ میں تو رہتی ہیں ناں؟‘‘۔
اس نے ہاں میں گردن ہلائی۔ اگر وہ انکارکرتا تو اس کا جھوٹ فوراً پکڑا جاتا کیونکہ یہ بات پہلے ہی میرے علم میں تھی۔ میں نے اطمینان کے احساس کے ساتھ کہا۔ ’’اور تم نیامت طور پر (باقاعدگی سے) سگریٹ بھی پیتے ہو، اور کم ازکم ایک پیکٹ ہر وقت تمہارے پاس رہتا ہے؟‘‘۔
اس نے میری اس بات سے بھی اتفاق کیا۔ میں نے کہا۔ ’’تو بس سمجھو بات بن گئی۔ میں تمہیں کچھ دستاویز پتروں اور ڈرائنگز کی فہرست دوں گا۔ تم سب سے آنکھ بچاکر کیمرے سے باری باری ان کے فوٹوگراف بنانا اور مجھ تک پہنچاتے رہنا‘‘۔
میری بات سن کر وہ بری طرح چونکا اور پھر تقریباً چیخ کر کہا۔ ’’لگتا ہے تمہارا مستشک (بھیجا) پھر گیا ہے؟ ہمارے کاریالے (دفتر) میں کیمرے جیسی کوئی چیز ساتھ لے جانے کی پرمیشن نہیں ہے۔ اور اگر کسی طرح چھپاکر لے بھی جاؤں تو پہلی فوٹو کھینچتے ہی مجھے گدی سے پکڑلیں گے لوگ!‘‘۔
میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’تمہارے دفتر میںکیمرا ساتھ لے جانا بین ہے ناں؟ سگریٹ کا پیکٹ لے جانے کی تو انومتی (اجازت) ہے؟‘‘۔
اس کے ہاں میں گردن ہلانے پر میں نے جیب سے کیمرے والا سگریٹ کیس نکال کر اس کے سامنے رکھتے ہوئے کہا۔ ’’تم اسے ساتھ لے کر جاؤ گے۔ اس کے بعد جتنی چاہے تصویریں کھینچو، کسی کو پتا نہیں چلے گا، کیونکہ وہ کیمرا اسی سگریٹ کیس میں چھپا ہوا ہے، جس سے میں نے تمہاری یہ ساری تصویریں کھینچی ہیں‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment