فکر رعایا نے ہلکان کر دیا

حضرت فاروق اعظمؓ کی خلافت کے پانچویں سال عرب میں شدید قحط پڑا، خشک سالی اور قحط نے انسانوں اور حیوانوں کو بری طرح متاثر کیا۔ بدوی قبائل نے فاقہ کشی سے مجبور ہو کر دارالخلافہ مدینہ کا رخ کیا، انسانوں اور حیوانوں کی بدحالی کو دیکھ کر خلیفہ پر خواب و خور حرام ہو گیا، انہوں نے خلق خدا کو قحط کی تباہ کاریوں سے بچانے کے لیے دن رات ایک کر دیا اور اپنے اور اہل وعیال پر گھی، دودھ، شہد اور دوسری عمدہ اشیاء کا استعمال اس وقت تک ممنوع قرار دے دیا، جب تک یہ چیزیں دوسرے مسلمانوں کو بھی میسر نہیں آتیں۔
ایک دفعہ ان کے خادم نے بھاری قیمت دے کر دودھ اور گھی سے بھرے ہوئے دو مشکیزے خریدے، لیکن حضرت عمرؓ نے یہ کہہ کر کھانے سے انکار کر دیا کہ میں یہ نفیس و لذیذ چیزیں کیسے کھا سکتا ہوں، جبکہ لوگ بھوکے مر رہے ہیں اور وہ دودھ اور گھی عام لوگوں میں بانٹ دیا۔ چاہتے تو اپنے لیے عیش و راحت اور خوش بسری کے سامان بہم پہنچا سکتے تھے، جیسا کہ دنیا کے اہل اقتدار آج تک کرتے چلے آئے ہیں۔ لیکن حضرت عمرؓ فرماتے تھے کہ ’’مجھے لوگوں کی تکلیف کا احساس کیونکر ہو سکتا ہے، جب تک میں خود ان کی مصیبت میں شریک نہ ہوں۔‘‘ دیکھنے والے ان کی حالت دیکھ کر کہتے کہ اگر قحط دور نہ ہوا تو حضرت عمرؓ کو رعایا کا غم ہلاک کر دے گا۔ سرخ و سفید رنگ سیاہ پڑ گیا تھا، وہ عام لوگوں کی طرح رہ کر اور کھا پی کر ان کی تکلیف کا احساس اپنے اندر بیدار رکھنا چاہتے تھے۔
ایک دفعہ اپنے ایک کمسن لڑکے کے ہاتھ میں خربوزہ دیکھا تو یہ کہہ کر چھین لیا کہ دوسروں کو تو روٹی کا ٹکڑا میسر نہیں اور عمر کی اولاد خربوزے کھاتی ہے۔ ایک دوسرے موقع پر ایک ننھی بچی کو دیکھا جو بہت کمزور اور مریل تھی اور بڑی مشکل سے لڑھکتی، گرتی پڑتی جا رہی تھی، پوچھا یہ بچی کون ہے اور اسے کیا ہوا ہے؟ آپؓ کے صاحبزادے حضرت ابن عمرؓ جو خود بھی جلیل القدر صحابی تھے، نے بتایا کہ ’’یہ میری بیٹی اور آپ کی پوتی ہے، بھوک اور فاقے نے اس کی یہ حالت کر دی ہے۔‘‘ حضرت عمرؓ یہ سن کر پہلے خاموش ہو گئے، پھر فرمایا کہ میں آل عمر کے روزینوں میں اضافہ نہیںکر سکتا۔ اکثر روتے اور گڑ گڑا کر دعائیں مانگتے کہ باری تعالیٰ! امت محمدیہؐ کو میری خطائوں کی وجہ سے ہلاک نہ کرنا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment