شیخ ابراہیم الحازمی لکھتے ہیں کہ لندن میں بہت سے لوگ ایک جگہ اکٹھے بیٹھ کر گپ شپ میں مشغول تھے کہ اچانک انہوں نے ایک دل دہلانے والے دھماکے کی آواز سنی، جس نے اس جگہ کے علاوہ آس پاس کے علاقوں کو بھی ہلا کر رکھ دیا۔
یہ دھماکہ سن 1974ء میں آئر لینڈ کی فوج کی جانب سے انگلینڈ کے دارالحکومت میں کیا گیا تھا۔ اس دھماکے کا ہدف عام شہری تھے۔ چنانچہ سینکڑوں افراد مارے گئے اور متعدد زخمی ہوئے اور الزام چھ آئرلینڈیوں پر لگا، کیوں کہ یہ چھ اشخاص اس دھماکے کے آس پاس پائے گئے تھے اور دھماکہ کرنے کے اثرات ان کے ہاتھوں پر موجود تھے، اس وقت پولیس والوں نے انہیں گرفتار کرکے شدید پٹائی کی اور بالآخر ان بے چاروں نے اس گناہ کا اعتراف کرلیا جو انہوں نے کیا ہی نہیں تھا۔
چنانچہ وہ اپنے اعتراف کی بناء پر جیل بھیج دیئے گئے۔ وکیل صفائی بھی ان سے الزام کو رد نہ کر سکا، کیوں کہ حاکم نے شاہدوں اور وکیل کو سوچنے سمجھنے کا کوئی موقع ہی نہ دیا۔
سن 1975ء میں انہیں عمر قید کی سزا سنا دی گئی۔ وہ جیل میں حسرت و ندامت کے ساتھ جی رہے تھے اور سختیوں کی آگ میں تب رہے تھے، کیوں کہ ان کا کوئی قصور نہیں تھا، بلکہ وہ اس طرح بری تھے جیسے بھیڑیا حضرت یوسفؑ کے خون سے بری تھا۔
وہ 1974ء سے 1991ء بمطابق (1393ھ سے 1411ھ) سولہ سال تک جیل میں رہے اور 1991ء میں یہ چھ افراد باعزت طور پر جیل سے بری ہوگئے، وہ بے انتہا خوش تھے۔
لیکن یہ کیسے بری ہوئے؟
وہ اس طرح ہوا کہ عدالت نے ازسرنو مقدمے کی جانچ پڑتال کا حکم دیا اور وکیل صفائی نے ان پر عائد کردہ تمام الزامات جھوٹے ثابت کر دیئے، چنانچہ عدالت کا مقدمہ کی ازسرنو جانچ پڑتال کا یہ حکم بالکل صحیح تھا، کیوں کہ بعد میں معلوم چلا کہ وہ کوئی اور لوگ ہیں، جو اس گھناؤنے کام کے مرتکب ہوئے ہیں اور پھر ان کو حراست میں بھی لے لیا گیا۔
(راحت پانے والے۔ مولف: ڈاکٹر ابراہیم الحازمی، استاذ کنگ سعود یونیورسٹی ریاض، سعودی عرب)
٭٭٭٭٭