قبور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی منتقلی

حضرت حذیفہ بن یمانؓ اور حضرت عبداللہ بن جابرؓ کے مزارات کے ساتھ گزشتہ صدی (جو اب گزشتہ صدی ہو چکی) میں ایک عجیب و غریب اور ایمان افروز واقعہ رونما ہوا، جو آج کل بہت کم لوگوں کو معلوم ہے۔ یہ واقعہ میں (مصنف کتاب: حضرت حدیفہ بن یمانؓ) نے پہلی بار جناب مولانا ظفر اللہ انصاریؒ سے سنا تھا۔ پھر بغداد میں وزارت اوقاف کے ڈائریکٹر تعلقات عامہ جناب خیر اللہ حدیثی صاحب نے بھی اجمالاً اس کا ذکر کیا۔
یہ 1929ء کا واقعہ ہے۔ اس وقت عراق میں بادشاہت تھی۔ حضرت حذیفہ بن یمانؓ اور حضرت عبد اللہ بن جابرؓ کی قبریں اس وقت یہاں (جامع مسجد سلمان فارسیؓ کے احاطے میں) نہیں تھیں، بلکہ یہاں سے کافی فاصلے پر دریائے دجلہ اور مسجد سلمانؓ کے درمیان میں ایک جگہ واقع تھیں۔
1929ء میں بادشاہ وقت نے خواب میں دیکھا کہ حضرت حذیفہ بن یمانؓ اور حضرت عبد اللہ بن جابرؓ اس سے فرما رہے ہیں کہ ہماری قبروں میں پانی آرہا ہے، اس کا مناسب انتظام کرو۔ بادشاہ وقت نے حکم دیا کہ دریائے دجلہ اور قبروں کے درمیان کسی جگہ کھدائی کرکے دیکھا جائے کہ دجلہ کا پانی اندرونی طور پر قبروں کی طرف آرہا ہے یا نہیں؟ کھدائی کی گئی، لیکن پانی رسنے کے کوئی آثار نظر نہیں آئے۔ چنانچہ بادشاہ نے اس واقعہ کو ایک خواب سمجھ کر نظر انداز کردیا۔
لیکن اس کے بعد پھر غالباً ایک سے زیادہ مرتبہ وہی خواب دکھائی دیا، جس سے بادشاہ کو بڑی تشویش ہوئی اور اس نے علماء کو جمع کرکے ان کے سامنے یہ واقعہ بیان کیا۔ ایسا یاد پڑتا ہے کہ اس وقت عراق کے کسی عالم نے بھی بیان کیا کہ انہوں نے بھی بعینہ یہی خواب دیکھا ہے۔ اس وقت مشورہ اور بحث و تمحیص کے بعد یہ رائے قرار پائی کہ دونوں بزرگوں کی قبریں کھول کر دیکھا جائے، اگر پانی آرہا ہو تو ان کے جسموں کو دوسری جگہ منتقل کیا جائے۔ اس وقت کے علماء نے بھی اس رائے سے اتفاق کیا۔
چونکہ قرون اولیٰ کے دو عظیم بزرگوں یعنی اصحاب رسولؐ کی قبروں کو کھولنے کا یہ تاریخ میں پہلا واقعہ تھا۔ اس لئے حکومت عراق نے اس کا بڑا زبردست اہتمام کیا۔ اس کے لئے ایک تاریخ مقرر کر دی، تاکہ لوگ اس عمل میں شریک ہو سکیں۔ اتفاق سے وہ تاریخ ایام حج کے قریب تھی، جب اس ارادہ کی اطلاع حجاز پہنچی تو وہاں حج پر آئے ہوئے لوگوں نے حکومت عراق سے درخواست کی کہ اس تاریخ کو قدرے مؤخر کر دیا جائے، تاکہ حج سے فارغ ہوکر جو لوگ عراق آنا چاہیں، وہ آسکیں۔ چنانچہ حکومت عراق نے حج کے بعد ایک تاریخ مقرر کر دی۔
مقررہ تاریخ پر نہ صرف اندرون عراق، بلکہ دوسرے ملکوں سے بھی خلقت کا اس قدر ازدہام ہوگیا کہ حکومت نے سب کو یہ عمل دکھانے کے لئے بڑی بڑی اسکرینیں دور دور تک لگائیں، تاکہ جو لوگ براہ راست قبروں کے پاس یہ عمل نہ دیکھ سکیں، وہ ان اسکرینوں پر اس کا عکس دیکھ لیں۔
اس طرح یہ مبارک قبریں کھولی گئیں اور ہزار ہا افراد کے سمندر نے یہ حیرت انگیز منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ تقریباً تیرہ صدیاں گزرنے کے باوجود دونوں بزرگوں کے اجسام مبارکہ صحیح سالم اور تروتازہ تھے۔ بلکہ ایک غیر مسلم ماہر امراض چشم وہاں موجود تھا۔ اس نے لاش مبارک کو دیکھ کر بتایا کہ ان میں ابھی تک وہ چمک بھی موجود ہے جو کسی مردے کی آنکھوں میں انتقال کے کچھ دیر بعد موجود نہیں رہ سکتی۔ چنانچہ وہ شخص یہ منظر دیکھ کر مسلمان ہو گیا۔
لاش مبارک کو منتقل کرنے کے لئے پہلے سے مسجد حضرت سلمان فارسیؓ کے قریب جگہ تیار کر لی گئی تھی۔ وہاں تک لے جانے کے لئے لاش مبارک کو جنازہ پر رکھا گیا، اس میں لمبے لمبے بانس باندھے گئے اور ہزار ہا افراد کو کندھا دینے کی سعادت نصیب ہوئی۔ اس طرح اب دونوں بزرگوں کی قبریں اس موجودہ جگہ پر بنی ہوئی ہیں۔ (کتاب: حضرت حدیفہ بن یمانؓ، ڈاکٹر مولانا عمران اشرف عثمانی، بیت العلوم کراچی، ص 17)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment