شہزادہ فخرو وزیرخانم سے ملنے کی تدبیر کرتے رہے

مرزا محمد سلطان فتح الملک بہادر عرف مرزا فخرو نے تصویر ہاتھ سے رکھ دی، لیکن اسے اپنے سامنے ہی رکھا۔ نواب مرزا کو قدم شریف کی اس ذرا سی ملاقات کے سوا بھی وہ کئی بار دیکھ چکے تھے۔ ماں سے اس کی مشابہت اور سیہ فامی کے باوجود اس کے بے مثال حسن کی وجہ اب ان پر کچھ واضح ہوگئی تھی۔ وہ چاہتے تھے کہ تصویر کو سنبھال کر صندوقچے میں رکھ دیں، تاکہ کسی ناجنس کی نظر نہ پڑے۔ لیکن انہیں اندیشہ تھا کہ تصویر اٹھالوں گا تو کلیجے ہی سے لگائے بن پڑے گی۔ میاں غلام علی خان بھی کیا کمال کے آدمی ہیں۔ لیکن وزیر خانم سے ملنے کی طرح کیا ہو؟ نکاح کا پیغام دوں یا یوں ہی اپنے پاس رہنے کے لیے کہوں؟ اور اگر انہوں نے پابند رہنے، یا پاس رہنے سے انکار کر دیا؟ مرزا فخرو نے کہیں اڑتی اڑتی سنی تھی کہ نواب احمد بخش خان کے چھوٹے بیٹے ضیاء الدین احمد نے بھی وزیر خانم کی طرف کچھ سلسلہ جنبانی کی تھی۔ اس کا کچھ نتیجہ برآمد ہوا کہ نہیں، اور اگر کوئی نتیجہ تھا تو وہ کیا تھا، اس پر وہ مطلع نہ تھے۔ لیکن وزیر خانم اگر واقعی اس تمکنت اور جذبہ و فکر میں اسی تعمق کی عورت تھیں جو ان کی شبیہ سے ہویدا تھا تو بلاشبہ انہوں نے ضیاء الدین احمد کو محض ایک چھوکرے کی طرح اپنے آستانے سے مسترد کر دیا ہوگا۔ لیکن ہم ان سے درسخن کس طرح باز کریں۔ بجا کہ شہر کے بعض رئوسا اور بعض انگریز ان کے ہاں ہماری کبھی کبھی کی آمد و رفت ہے، لیکن وہ ملنا ملانا، جانا آنا اور ہے اور ہمارا وزیر خانم کے در پر جاکر دق باب کرنا اور ہے۔ اور پھر یہ بھی ہے کہ کامیابی نہ ہوئی تو بڑی ہی سبکی ہوگی۔ لیکن اگر کامیابی نہ ہوئی تو ہماری زندگی…۔
ایک چوبدار نے آہستہ سے پردہ ہٹا کر جھانکا اور ہمت کرکے بہت دھیمی آواز میں کہا: ’’سرکار صاحب عالم۔ استاد تشریف لانے کی اجازت کے خواستگار ہیں‘‘۔
مرزا غلام فخرالدین ذرا سا چونکے۔ انہوں نے جلدی سے وزیر خانم کی تصویر اپنے صندوقچے میں رکھی اور دونوں ہاتھ منہ پر پھیر کر آنکھوں کو ملا، گویا ابھی نیند سے بیدار ہوئے ہوں۔
’’استاد تشریف لے آئے؟ بہت خوب۔ انہیں باریابی دی جائے‘‘۔
’’جی اعلیٰ حضرت‘‘ کہہ کر چوبدار نے اپنے پیچھے کھڑے ہوئے استاد ذوق کو خفیف سا اشارہ کیا اور استاد پردہ اٹھا کر پر اشتیاق لہجے میں یہ کہتے ہوئے اندر تشریف لائے: ’’بندگی عرض کرتا ہوں صاحب عالم۔ سرکار کا مزاج کیسا ہے؟‘‘۔
’’اہلاً و سہلاً۔ آئیں حضرت، میرے قریب تشریف لائیں‘‘۔ مرزا فتح الملک نے اپنی جگہ پر سرو قد کھڑے ہو کر کہا۔
شیخ محمد ابراہیم ذوق کی عمر کوئی ساٹھ برس کی تھی۔ متوسط قد، متوسط بدن، خوبصورت، یک مشت سے کچھ زیادہ تل چاولی داڑھی، لیکن مناسب ترشی ہوئی اور ذرا نوکیلی، بہت گھنی نہیں لیکن چھدری بھی نہیں۔ مونچھیں ہلکی لیکن ایسی نہیں کہ مولویوں جیسی کتری ہوئی لبیں معلوم ہوں۔ سر پر چوگوشیہ سیاہ مخملی ٹوپی جس پر کارچوبی کی بیل، گلے میں ہلکے سبز رنگ کی ململ کا کرتا، لیکن اتنا باریک نہیں کہ بدن جھلکے، جیسا اس زمانے کا دستور تھا، کرتے کے اوپر سفید مشروع کا نیمہ، اس کے اوپر بہت ہلکے رنگ کی پھولام کی کفتان بر میں دھاری دار سنگی کا ڈھیلا پاجامہ، مہریاں جس کی اتنی چوڑی تھیں کہ پاپوش ڈھک گئی تھی، یعنی پاپوش اگر ان کے پاؤں میں ہوتی تو ڈھک گئی ہوتی۔ حسب معمول ایون میں داخل ہونے کے پہلے انہوں نے جوتیاں باہر ہی اتار دی تھیں۔ رنگ ان کا اچھا سانولا اور چہرے کا نقشہ کھڑا کھڑا تھا۔ چہرے پر چیچک کے داغ کثرت سے تھے، لیکن ان کی صورت پر خوش مزاجی اور طباعی اس قدر برستی تھی کہ چیچک کے داغوں کا عیب محسوس نہ ہوتا تھا۔ آنکھیں بڑی بڑی اور روشن، نگاہیں تیز، چال ڈھال سے ذہنی پھرتی اور خود اعتمادی نمایاں تھی۔
استاد آگے بڑھتے آئے۔ قریب پہنچ کر انہوں نے نہایت گرم جوشی کے ساتھ شہزادے سے مصافحہ کیا۔ مرزا فتح الملک نے ان کے ہاتھوں کو بوسہ دیا اور اپنے پہلو میں جگہ دے کر سامنے رکھی ہوئی سونے کی جالی دار ڈبیا سے چکنی ڈلی اور الائچی لے کر اپنے ہاتھوں پر رکھی اور استاد سے کہا۔ ’’شوق فرمائیں حضور اتنے بھنڈا تیار ہوتا ہے‘‘۔
’’جی بڑا کرم ہے صاحب عالم کا، لیکن بھنڈا اس وقت نہ عطا ہوتا تو عین بندہ پروری ہوتی‘‘۔ استاد ذوق نے الائچی کے دو دانے سلام کرکے اٹھاتے ہوئے عرض کیا۔
شاہزادے کی پیش کی ہوئی تواضع کو قبول نہ کرنا عام لوگوں کے لیے بڑی گستاخی ہوتی۔ لیکن استاد ذوق چونکہ استاد شاہ تھے، اس لئے وہ غیر ولی عہد شاہزادے سے اتنی بے تکلفی برت سکتے تھے، لیکن وہ بھی شاذ اور خاص حالات میں ممکن تھا۔
مرزا فخرو متبسم ہوئے۔ ’’استاد، آپ کی نکتہ طرازیاں بھی خوب ہیں کہ ہماری کوئی شے آپ تک نہ پہنچے تو یہ ہماری بندہ پروری ٹھہرے‘‘۔
شیخ ذوق کو شاہزادے کے اس جملے میں تعریض کی خفیف سی جھلک دکھائی دی۔ بھنڈے کا قبول کرنا شاید صاحب عالم کر برا لگا تھا۔
’’صاحب عالم کی بندہ پروری تو اظہر من الشمس ہے اور ہم سب ہی صاحب عالم کے خوان کرم کے زلہ ربا ہیں‘‘۔ ذوق نے مسکرا کر کہا۔ ’’آپ کے آستانے سے بھنڈا نصیب ہو یہ میری عین خوش بختی ہے۔ لیکن دو تین دن سے شدید کھانسی میں مبتلا ہوں۔ راتوں کی نیند حرام ہوگئی ہے۔ عمدۃ الحکما نے حکم دیا ہے کہ دود اور دخان کی ہر شے سے پرہیز کرو‘‘۔
اس طویل جواب دہی نے شہزادے کی خوش مزاجی بحال کر دی۔ انہوں نے کہا: ’’نہیں ہم بھلا آپ کے فقدان راحت کا سبب کیونکے بن سکتے ہیں۔ آپ نہ چاہیں تو شغل نہ فرمائیں‘‘۔
اس اثنا میں ایک چوبدار نے چاندی کی کشتی میں لگا کر خشک میوؤں کی دو طشتریاں حاضر کیں۔ استاد نے جھک کر شاہزادے کو تسلیم کی اور بادام کے دو دانے منہ میں ڈالتے ہوئے مسکرا کر عرض کیا ’’حضور ان باداموں پر تو کسی کی آنکھیں نثار ہوں…‘‘۔
’’جی ہاں‘‘۔ فتح الملک شاہ بہادر نے مسکرا کہا۔ ’’لہجئے یہ تو مصرع ہی ہوگیا، ’’ایما یہ ہے کہ بھیج دے آنکھیں نکال کر‘‘۔ یہ کہہ کر شاہزادے نے استاد ذوق کی طرف کچھ متوقع نظروں سے دیکھا، گویا مصرعے پر گرہ کے طالب ہوں۔ وہاں تو مضامین صف کھڑے ہی رہتے تھے، جیسے امرالقیس نے لکھا ہے کہ قافیوں کی میرے سامنے وہ کثرت ہے جیسے بچے کے آگے ٹڈی دل، کہ ایک کو پکڑتا ہے تو دو ہاتھ سے نکلے جاتے ہیں۔ استاد نے ہاتھ باندھ کر عرض کی: ’’مرشد زادے کے سامنے منہ کھولوں، یہ میری حقیقت کیا، لیکن از راہ امتثال امر عرض کرتا ہوں کہ مطلع ہوا ہے…‘‘۔
’’خوب، استاد بہت خوب۔ ارشاد ہو‘‘۔
ذوق نے یوں ہی ہاتھ باندھے باندھے مطلع پڑھا
بادام دو بھیجے ہیں بٹوے میں ڈال کر
ایما یہ ہے کہ بھیج دے آنکھیں نکال کر
’’اماں استاد آپ مغتنم روزگار ہیں۔ واللہ کیا مطلع سر کیا ہے، جی چاہتا ہے ہاتھ چوم لیجئے‘‘۔ مرزا فتح الملک بہادر نے فرمایا۔
استاد نے نیم قد اٹھ کر تعظیم دی اور کہا۔ ’’یہ سب حضور ہی کے خانوادے کا فیض ہے۔ لیکن صاحب عالم نے بھی تو ادھر کچھ کیا ہوگا۔ کیا ہم تشنگان آب حیات سخن کو عطشاں عطشاں ہی واپس بھیج دیں گے؟‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment