فرانسیسی جیولوجسٹ کے مقالے نے سالٹ ڈومز کے وزٹ کی خواہش پیدا کی

آگے بڑھنے سے پہلے مناسب ہوگا کہ میں معزز قارئین کو یہ بتادوں کہ میرے جزیرہ ہرمز کو وزٹ کرنے کا کیا پس منظر تھا۔ میں نے اپنے ارضیاتی کیریئر کا آغاز مارچ 1957ء سے کیا۔ شروع کا ایک سال بطور زیر تربیت جیولوجسٹ پاکستان صنعتی ترقیاتی کارپوریشن (PIDC) کے صدر دفتر کراچی میں گزارا۔ اس کے بعد میرا تبادلہ کوہستان نمک کی (Salt Range) مغربی شاخ سورغر رینج میں واقع مکروال کی کوئلے کی کانوں میں ہوگیا۔ اس پروجیکٹ پر میں ستمبر 1966ء تک رہا۔ اس عرصے میں مکروال کی کوئلے کی کانوں جو اٹھارہ میل کے علاقے میں پھیلی ہوئی تھیں، کی ارضیاتی ذمہ داریاں، کالا باغ کی خام لوہے کی کانوں کی ارضیاتی ذمہ داریاں نیز کوہستان نمک میں واقع پاکستان صنعتی ترقیاتی کارپوریشن کے صنعتی پروجیکٹس بالخصوص داؤد خیل کی کھاد فیکٹری و سفید سیمنٹ فیکٹری کی ارضیاتی ذمہ داریاں بھی میرے پاس تھیں۔ اسی علاقے میں کالا باغ کی نمک کی کانیں بھی تھیں اور اس علاقے کے مزید مشرق میں وارچھا (قائدہ باد) اور کھیوڑہ کی مشہور زمانہ نمک کی کانیں بھی تھیں جہاں میں گاہے گاہے جاتا رہتا تھا اور جب بھی جاتا انتہائی پراگندہ خاطر ہوکر واپس آتا۔ کیونکہ میری سمجھ میں وہاں جیولوجی بالکل نہ آتی تھی۔ وجہ یہ تھی کہ میں نے طالب علمی کے زمانے سے ہی کوہستان نمک یا سالٹ رینج کی نمک کی جیولوجی کی بابت جو پڑھا تھا اور اب ملازمت میں آنے کے بعد دستیاب جیولوجیکل لٹریچر میں نمک کی جیولوجی کی بابت جو پڑھا، وہ نمک کی کانوں کے اندر اور باہر مجھے نظر نہ آتا تھا بلکہ اس کا الٹا ہی نظر آتا تھا۔ بات یہاں تک پہنچی کہ میں نے اعلان کر دیا کہ میں نمک کی جیولوجی کو سمجھ ہی نہیں سکتا۔ اسی باعث اس زمانے میں کسی سے بھی نمک کی جیولوجی پر بات کرنے سے کتراتا تھا اور مجبور کیے جانے پر صاف کہہ دیتا کہ بھائیو، یہ میرے بس کا کام نہیں ہے اور میں اس پر بالکل رائے زنی نہیں کروںگا۔ اس کے بعد خدا کا کرنا یہ ہوا کہ 1980ء میں جبکہ میں پاکستان معدنی ترقیاتی کارپوریشن (PMDC) کے پنجاب کے معدنی ترقیاتی ادارے (PMDC’s: Punjab Mineral Development Cell) کے سربراہ کے طور پر راولپنڈی میں مقیم تھا، کارپوریشن کے بورڈ آف ڈائریکٹرز بالخصوص ڈائریکٹر ٹیکنیکل خواجہ آصف اللہ صاحب نے نمک کی کانوں میں پیداوار کا بہران پیدا ہونے پر اور ان خبروں پر کہ کارپوریشن نمک کی کانوں میں نمک کے ذخائر قریب الختم ہیں، ایک ٹاسک فورس بنائی، جس میں اس زمانے میں PMDC کے ایکسپلوریشن ڈیپارٹمنٹ میں موجود تمام جیولوجسٹوں، مائننگ انجینئروں، ڈرلنگ ایجینئروں معہ تین عدد ڈرلنگ مشینوں اور کارپوریشن کی کیمیکل لیبارٹری کو شامل کر دیا۔ اس پرستم ظریفی یہ کہ مجھ حقیر کو اس ٹاسک فورس کا سربراہ بنا دیا گیا۔ اس ٹاسک فورس کے کل ارکان کی تعداد بائیس تھی۔ میں اپنے ڈائریکٹر خواجہ آصف اللہ صاحب کے پاس ذاتی طور پر حاضر ہوا اور انہیں بتایا کہ میں کیونکہ نمک کی جیولوجی کے حوالے سے ایک جاہل مطلق ہوں اس لیے برائے مہربانی یہ ذمہ داری کسی اور مناسب افسر پر ڈال دیں، میں بخوشی اس کے تحت کام کروں گا، اس سے سیکھنے کی کوشش کروں گا اور مقدور بھر اس کی مدد کروں گا۔ مگر وہ نہ مانے اور کہا کہ انہیں یقین ہے کہ جب آپ یہ ذمہ داری اٹھا لیں گے اور پوری کوشش کریں گے تو سب کچھ آپ کی سمجھ میں آجائے گا۔ ناچار میں نے یہ ذمہ داری اٹھا لی۔ مگر اپنے سب ماتحتوں کو جمع کرکے ایک چھوٹی سی تقریر کی کہ دوستو، آپ بخوبی جانتے ہیں کہ میں نمک کی جیولوجی سے نابلد ہوں اور آپ میں سے ہر ایک اس فیلڈ میں مجھ سے زیادہ ذی علم ہے۔ اس لیے میری آپ سے درخواست ہے کہ آپ پہلے اس شعبے میں میری تدریس کریں۔ آپ صاحبان سے کچھ سیکھ کر ہی میں آپ کا سربراہ بننے کی کوشش کروں گا۔ اس سلسلے میں آپ صاحبان کو فرداً فرداً یا دو دو، تین تین کی جماعتوں میں فیلڈ پر لے جاؤں گا اور وہاں ہر قسم کے بیوقوفانہ سوالات کروں گا۔ آپ مجھے پڑھائیں اور میری تربیت کریں تاکہ میں آپ کا ایک مفید سربراہ بن سکوں۔ اس طرح جب میں نے اپنی جہالت کا اعتراف کر لیا تو میرے ماتحت بھی مجھے ’پڑھانے‘ پر پورے خلوص سے راضی ہوگئے۔ مگر شومی قسمت کہ میری یہ شاگردی، زیادہ دیر نہ چل سکی اور جلد ہی مجھے معلوم ہوگیا کہ اس فیلڈ میں جتنا بڑا گدھا میں ہوں، اتنے ہی بڑے وہ سب ہیں کہ انہوں نے اس سے پہلے اس پر غور ہی نہ کیا تھا کہ نمک جو ہمیں بالائے زمیں افقی حالت میں پڑا نظر آتا ہے زیر زمین، نمک کی کانوں میں، تیز جھکاؤ سے عمودی حالت تک میں کیوں ہوجاتا ہے اور یہ کہ نمک کے اوپر پڑی نام نہاد چمکیلی سرخ، بھدی سرخ مارل اور بھنڈر کس جپسم (Bright Red Marl, Dull Red Marl and Bhandar Kas Gypsum) میں عام تہہ دار چٹانوں کی طرح تہہ داری کیوں نہیں ہے۔ اور یہ نمک جگہ جگہ ڈائکس (dykes) یا پائپوں (pipes) کی شکل میں آتشیں چٹانوں یا لاوے کی طرح اوپری چٹانوں میں گھسا ہوا (intruded) کیوں نظر آتا ہے۔ نیز یہ کہ نمک کی ضخیم تہیں کوہستان نمک میں کئی مقامات پر حالیہ زمانے کے پہاڑی ملبے کے اوپر نمک کے منبع سے کئی ہزار فٹ دور تک افقی حالت میں پڑی ہوئی ملتی ہیں، ایسا کیوں اور کس طرح ممکن ہے؟
قصہ مختصر میں نے خود ہی کوہستان نمک کی جیولوجی بالخصوص نمک کی جیولوجی کو سمجھنے کا فیصلہ کیا۔ اس سلسلہ میں تنہا ہی کوہستان نمک کے مشرق سے مغرب تک مختلف حصوں کے دورے کرنے شروع کیے۔ نیز کوہستان نمک کی جیولوجی پر جتنا لٹریچر پاکستان میں دستیاب تھا وہ جمع کرنا اور اس کا تنقیدی مطالعہ شروع کیا۔ ایک اہم مقالہ جو جرمنی کے نمک کے ذخائر پر ایک جرمن جیولوجسٹ (F. Trusheim) نے 1960ء میں شائع کیا تھا، اپنے ایک مہربان امریکی جیولوجسٹ کی معرفت امریکہ سے منگوایا اور ایک فرانسیسی جیولوجسٹ J.W. Schroeder کا 1946ء میں شائع شدہ مقالہ اپنی ایک واقف کار فرانسیسی خاتون جیولوجسٹ مسز ڈیلانی کی وساطت سے پیرس (فرانس) سے منگوایا۔ درحقیقت یہی آخر الذکر وہ مقالہ تھا کہ جس نے میرے دل میں اس زمانے میں ہی ہرمز اور لارک جزیروں یا باالفاظ دگر ہرمز اور لارک کے نمک کے گنبدوں کو وزٹ کرنے کی شدید خواہش پیدا کی۔ اس مقالے میں محترمی شروڈر صاحب نے مقامی جیولوجی کو زیر بحث لانے کے علاوہ ہرمز فارمیشن کا مقابلہ سالٹ رینج کی کھیوڑا فارمیشن سے کیا تھا۔ یا باالفاظ دگر دونوں فارمیشنوں کو ایک ہی فارمیشن کے دو مختلف نام قرار دیا تھا۔ کھیوڑہ فارمیشن سالٹ رینج کے نمک یا نمک کی فارمیشن کے اوپر پائی جانے والی فارمیشن کا نام ہے۔ اور سالٹ رینج کے نمک کی جیولوجی بغیر کھیوڑا فارمیشن کی جیولوجی کو زیر بحث لائے مکمل نہیں ہوتی۔ سب سے اہم بات نمک اور کھیوڑا فارمیشن کی مابین ملاپ یا کنٹیکٹ کی نوعیت ہے۔
بات ہو رہی تھی کہ میں ایسکلا ہرمز پر ایک پل عبور کرکے ہرمز جانے والی ایک موٹر بوٹ پر سوار ہوگیا۔ کشتی پر بشمول میرے صرف دو سواریاں تھیں۔ تقریباً بیس منٹ بعد اور اپنی روانگی کے صحیح وقت پر ہماری کشتی کے ناخدا نے لنگر اٹھا دیئے اور کشتی بجانب ہرمز رواں ہوگئی۔
آگے بڑھنے سے پہلے قارئین کرام کو ایک ضروری مشورہ دیتا چلوں اور وہ یہ کہ اگر آپ کے کولہے (Hips) ایکسٹرا مضبوط نہیں ہیں تو ایران میں کسی ایسی موٹر بوٹ پر نہ بیٹھیں جس کی سیٹیں فوم یا کم از کم دبیز کپڑے کی گدیوں سے مزین نہ ہوں۔ کیونکہ آپ نے اگر یہ احتیاط نہ برتی اور میری طرح لکڑی کی سیٹوں پر بیٹھ گئے تو پھر راستے میں عین ممکن ہے آپ اپنے کولہے فریکچر کرا لیں گے۔ اس لیے کہ ایرانی ملاحوں کو بہت تیز کشتی چلانے کا مرض لاحق ہے اور تیز چلانے سے موٹر بوٹ کا اگلا یا سامنے والا حصہ کئی کئی فٹ فضا میں بلند ہوجاتا ہے اور پھر یکایک نیچے سطح آب پر گرتا ہے تو مسافر حضرات کو اپنی سیٹوں کے چوبی تختوں پر بیٹھے ایسا لگتا ہے جیسے انہیں کسی نے زمین کے پختہ فرش سے چار یا پانچ فٹ اوپر اٹھا کر پھر فرش پر پٹخ دیا ہو اور یہ عمل بار بار دہرایا جا رہا ہو۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment