فرانس میں حلال اشیا پر ٹیکس کا فیصلہ

نذر الاسلام چودھری
فرانسیسی حکومت نے ایک تیونسی نژاد فرانسیسی اسکالر حکیم الکروئی اور فرانسیسی تھنک ٹینک کی جانب سے پیش کی جانے والی اصلاحاتی سفارشات کو نافذ کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس کے تحت فرانسیسی مسلمانوں کی حلال اشیا پر ٹیکس عائد کیا جائے گا اور وصول کی جانے والی رقم کو تمام مساجد کی منتظم باڈیز اور دیگر اسلامی اداروں پر خرچ کیا جائے گا۔ گھناؤنی سازش کے تحت تمام فرانسیسی مساجد کا کنٹرول بھی حکومت سنبھال لے گی اور ان مساجد پر سلفی مسلمانوں کا اثر و رسوخ ختم کر دیا جائے گا۔ امریکی جریدے نیوز ویک کا دعویٰ ہے کہ فرانسیسی صدر کی جانب سے اسلامسٹ فیکٹری پروگرام کا بنیادی مقصد سکیولر ازم اور فرانسیسی ثقافت اور مقامی مسلمانوں کے اشتراک سے فرانسیسی برانڈ اسلام کو فروغ دینا ہے، جو فرانسیسی طرز کے مسلمان کہلائیں گے۔ مقامی و عالمی میڈیا کے مطابق صدر ایمانوئیل ماکرون نے اپنے دور صدارت کے آغاز پر فرانس میں مبینہ دہشت گردی کو ختم کرنے کیلئے اس پروگرامنگ کا آغاز کیا تھا اور ایک جامع حکمت عملی بنانے کیلئے تیونس کے سابق وزیر اعظم کے بھتیجے حکیم الکروئی کو مقرر کیا تھا، جنہوں نے دو سالوں کی ’’انتھک محنت‘‘ کے بعد ایک نئی حکمت عملی بنا کر فرانسیسی صدر کو پیش کی ہے جس کا نام بھی ’’اسلامسٹ فیکٹری‘‘ متنازع رکھا گیا ہے۔ فرانسیسی سماجی تجزیہ نگاروں نے بتایا ہے کہ اس حلال ٹیکس کی حکمت عملی کو اسلامسٹ فیکٹری کا نام اس لئے دیا گیا ہے کہ اس کی مدد سے دہشت گرد بنانے والی فیکٹری کا خاتمہ کیا جائے۔ ایک فرانسیسی قانون کے تحت عالمی افق سے فرانس بھیجی جانے والی تمام اقسام کی مالی معاونت اور فنڈنگز کو بیک جنبش قلم روک دیا جائے گا، جس کے بارے میں ایک فرانسیسی انٹیلی جنس افسر نے دعویٰ ہے کہ یہ فنڈنگ فرانس میں شرانگیزی پھیلانے کیلئے کی جاتی ہے۔ اس لئے فنڈنگ کو روک دیا جائے گا اور تمام مساجد کا کنٹرول فرانسیسی حکومت کے خیالات سے ’’متفق‘‘ہونے والے مسلمانوں کے حوالہ کردیا جائے گا اور ایستادہ مسجد کا منتظم یا خطیب بھی فرانسیسی حکام کی مرضی سے لگایا جائے گا۔ جبکہ فرانسیسی معاشرے میں قائم تمام مساجد اور اسلامی تعلیم دینے والے تمام مدارس میں امام اور خطیبوں کا تقرر فرانسیسی حکومت کرے گی، جس کیلئے لازم ہے کہ امام فرانس میں یا یورپی یونیورسٹی سے کم از کم ماسٹرز ڈگری کا حامل ہو اور وہ فرانسیسی زبان، معاشرے اور عمرانیات سے اچھی واقفیت رکھتا ہو اور جدید فرانسیسی معاشرے کو اسلام سے منطبق کرنے کام کرسکے۔ فرانسیسی میڈیا کا دعویٰ ہے کہ فرانسیسی حکومت کے ’’اسلامسٹ فیکٹری منصوبہ‘‘ کو عرب امارات کی ماڈرن حکومت کا آشیر باد حاصل ہے۔ تیونسی اسکالر حکیم الکروئی کا کہنا ہے کہ فرانس میں شدت پسندی کا خاتمہ بہت ضروری ہے کیونکہ نوجوان طبقہ ایسے عقائد اختیار کرنے میں زیادہ دلچسپی دکھاتے ہیں اور انتہا پسندوں کا دست و بازو بن جاتے ہیں۔ اپنی تجاویز میں تیونسی اسکالر حکیم الکروئی نے زور دیا ہے کہ فرانسیسی مسلمانوں کیلئے ایک نئی تنظیم مسلم ایسوسی ایشن فار اسلام اِن فرانس کا قیام عمل میں لایا جائے اور تمام اسکولوں سمیت مدارس عربی زبان میں فرانسیسی ادب و ثقافت اور معاشرت پر مبنی مضامین پڑھائے جائیں گے اور فرانسیسی معاشرت زیادہ سے زیادہ مسلمان بچوں کو سکھائی جائے گی۔ واضح رہے کہ ماضی میں بھی فرانس سمیت یورپی ممالک میں کارگزار قادیانی تحریک اپنے مذموم عقائد کی آبیاری اور مقاصد کے حصول کیلئے متعدد مساجد میں اپنے ’’قادیانی امام ‘‘روشن خیال اور اعلیٰ تعلیم یافتہ اماموں کی آڑ میں داخل کرنے کی کوشش کرچکی ہے اور فرانسیسی حکومت مسلم کمیونٹی کیلئے اصلاحات اور ان کو انتہا پسندی سے دور کرنے کے نام پر ایک بار پھر قادیانیوں کو موقع دے رہی ہے کہ وہ مسلم تنظیموں سے چھینی جانے والی مساجد اور اسلامک سینٹرز کا کنٹرول قادیانیوں کو دے دیں، کیونکہ قادیانی جماعت جس کا ہیڈکوارٹر لندن میں ہے، بھرپور پیسہ رکھتی ہے اور فرانسیسی حکومت کو حلال ٹیکس کے نام پر رقوم کی ادائیگی کرکے قادیانی مبلغوں کو مسلمانوں کی مساجد کا امام مقرر کرواسکتی ہے۔ فرانسیسی حکومت کا دعویٰ ہے کہ حلال ٹیکس کے نفاذ کی حکمت عملی کے بارے میں فرانسیسی مسلمانوں کی ایک تنظیم ’’فرنچ کونسل آف مسلم فیتھ‘‘ کو بھی اعتماد میں لے لیا گیا ہے لیکن دلچسپ امر یہ ہے کہ فرانسیسی مسلمانوں کے نام کی حامل اس تنظیم کا تاحال کوئی عملی وجود دکھائی نہیں دیتا کیونکہ فرانسیسی میڈیا کے مطابق اس تنظیم کو ملکی انٹیلی جنس ایجنسی نے 2003 میں فرانسیسی صدر نکولس سرکوزی کے احکامات پر بنایا تھا۔ اس سلسلہ میں فرانسیسی تھینک ٹینک انسٹیٹیوٹ – مونتائی غن نے تسلیم کیا ہے کہ جب فرانسیسی مسلمانوں کا ایک سروے کرکے ان سے فرانسیسی مسلمانوں کی تنظیم ’’فرنچ کونسل آف مسلم فیتھ ‘‘کے بارے میں استفسار کیاگیا تو بیشتر مسلمانوں نے اس سے لاعلمی کا اظہار کیا اور بتایا کہ ہم پہلی بار فرانسیسی مسلمانوں کی اس تنظیم کا نام سن رہے ہیں ۔ معروف فرانسیسی جریدے لی موندے کا کہنا ہے کہ فرانسیسی حکومت کا حلال ٹیکس مساجد، مدارس، مسلمانوں کی دکانوں، حلال گوشت سمیت مختلف کاروبار اور حج اور عمرہ زائرین کے سفر پر عائد کیا جائے گا اور اس سے جو رقم جمع کی جائے گی وہ فرانس میں موجود مساجد اور خطیب حضرات کی تنخواہوں اور ایسی ہی مدات میں خرچ کی جائے گی۔ فرانسیسی انٹیلی جنس کی چھتری دار الحکومت پیرس میں کام کرنے والی ایک تھینک ٹینک انسٹیٹیوٹ -مونتائی غن نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ فرانسیسی صدر ایمانوئیل ماکرعون چاہتے ہیں کہ فرانسیسی مسلمانوں میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کی سوچ کو کم سے کم کرنے کیلئے نئی اصلاحات کی جائیں، جس کے تحت منظوری کے بعد فرانسیسی حکومت مسلم کمیونٹی سے حلال ٹیکس وصولے گی، جبکہ ان سفارشات کے تحت فرانسیسی جریدے ڈی مانش سے گفتگو میں فرانسیسی صدر کا دعویٰ تھا کہ وہ ملک میں اسلامی بنیاد پرستی کا خاتمہ چاہتے ہیں جبکہ مسلم تنظیموں اور مساجد و مدارس سمیت اسلامک سینٹروں کے بنیادی تنظیمی ڈھانچے کی از سر نو تعمیر کرنا چاہتے ہیں تاکہ فرانس کے غیر مسلم اکثریتی طبقہ کے ساتھ فرانسیسی مسلمانوں کے تعلقات بہتر بنائے جائیں۔ فرانسیسی تھینک ٹینک انسٹیٹیوٹ -مونتائی غن کا دعویٰ ہے کہ فرانس میں انتہا پسندی کی تمام فنڈنگز مشرق وسطیٰ سے ہوتی ہے اور مساجد کی تنظیم، اماموں کی تربیت سمیت ان کے مشاہروں اور فلاحی منصوبوں کی فنڈنگ فرانس کے بجائے بیرون ملک سے کی جاتی ہے اس لئے فرانسیسی حکومت کو بھیجی جانے والی تمام سفارشات میں کہا گیا ہے کہ تمام غیر ملکی فنڈنگز کو روکا جائے اور مسلم کمیونٹی کیلئے تمام اشیا پر حلال ٹیکس عائد کیا جائے، جبکہ فرانسیسی مسلمانوں کی تنظیموں پر بھی اپنا کنٹرول رکھا جائے اور جو لوگ فرانسیسی حکومت کے منصوبوں اور موقف سے اختلاف رکھتے ہوں ان کو مسلمانوں کی مقامی تنظیمی باڈی سمیت مساجد کی منتظمہ میں شامل نہ ہونے دیا جائے اور صرف اپنے ہم خیال افراد کو آگے رکھا جائے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment