عظمت علی رحمانی
تحریک لبیک پاکستان کے سربراہ علامہ خادم حسین رضوی نے محرم کے دوران تقاریر پر پابندی کا حکم ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ واضح رہے کہ حکومت نے محرم الحرام میں امن و امان برقرار رکھنے کیلئے علامہ خادم حسین رضوی کی تقاریر پر بھی پابندی عائد کی ہے۔ علاوہ ازیں 26 علما و ذاکرین پر اسلام آباد میں داخلے اور تقاریر پر پابندی عائد کی گئی ہے۔
اس ضمن میں تحریک لبیک پاکستان کے امیر علامہ خادم حسین رضوی نے ’’امت ‘‘سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ… ’’ہم پر محرم الحرام سے پہلے بھی پابندیاں لگتی رہتی ہیں، لیکن ان کی پرواہ کبھی نہیں کی ہے۔ یہ پابندیاں لگتی رہتی ہیں، بلکہ ہر دور کے اکابر علمائے کرام اور بڑے بڑے لوگوں پر حق گوئی کی وجہ سے یہ پابندیاں لگی ہیں، مگر انہوں نے اپنا کام کرنا ہوتا ہے اور وہ کرتے رہے ہیں۔ اسی طرح حکومت اور اداروں نے اپنا کام کرنا ہے اور ہم نے اپنا کام کرنا ہے۔ محرم الحرام میں علمائے کرام پر پابندی کی بات میری سمجھ میں نہیں آئی۔ خود ہی سارے معاملات کئے جاتے ہیں اور پابندیاں علمائے کرام پر لگائی جاتی ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ پابندی لگانی چاہئے۔ کیونکہ عالم کی یہ شان ہی نہیں کہ کوئی بھی ایسی بات کرے جس سے کسی کو تکلیف پہنچتی ہو۔ ہاں اگر کسی کو حق کڑوا لگتا ہے تو لگے، علمائے کرام اپنا کام جاری رکھیں گے‘‘۔ ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’’ہمیں دین کی ترجمانی سے کوئی روک نہیں سکتا، یہ کاغذی پابندی کیا روک سکے گی۔ محرم الحرام میں جس کے مفادات کو نقصان پہنچتا ہے، وہی شور کرتا ہے۔ موسیٰؑ کے بارے میں بھی فرعون نے یہی کہا تھا کہ معاذ اللہ جادوگر ہیں۔ اس لئے شور مچانے والے بھی یہی کہہ رہے ہیں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ حق اور باطل کا معرکہ ہمیشہ سے جاری ہے اور قیامت تک جاری رہے گا۔ ہم پر غازی ممتاز قادریؒ کی شہادت کے بعد سے پابندیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ اس کے بعد بھی ہم نے پروگرام کئے ہیں اور کرتے رہیں گے‘‘۔
علامہ خادم حسین رضوی کا مزید کہنا تھا کہ ’’علمائے کرام پر پابندی لگانے کی وجہ بھی تو بتائی جائے۔ احادیث کی روشنی میں حضور نبی کریمؐ کی امت کے علمائے کرام کو بنی اسرائیل کے انبیائے کرامؑ سے اس لئے ہی تشبیہ دی گئی ہے کہ یہ حق گو ہوں گے۔ حضور پاکؐ کی حدیث کا مفہوم ہے کہ اے میری امت کے علما ضرور بالضرور تم نے نیکی کا حکم دینا ہے۔ ظالموں کا ہاتھ پکڑنا ہے اور لوگوں کو ہاتھ سے پکڑ کر دین کی جانب لانا ہے، انہیں دین پر پابند کرنا ہے۔ اگر تم نے یہ باتیں نہ کیں تو اللہ تعالی تمہارے عوام کے ساتھ تمہیں ملا دے گا‘‘۔
واضح رہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے محرم الحرام میں سیکورٹی انتظامات کو مد نظر رکھتے ہوئے مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے 26 علمائے کرام اور ذاکرین کے اسلام آباد میں داخلے اور ان کی تقاریر پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ انتظامیہ نے جن علما پر اسلام آباد میں تقاریر کرنے پر پابندی عائد کی ہے، ان میں لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز، مجلس وحدت المسلمین کے علامہ امین شہیدی، مجلس وحدت مسلمین کے جنرل سیکریٹری علامہ ناصر عباس اور تحریک لبیک کے امیر علامہ خادم حسین رضوی قابل ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ مولانا عبدالرزاق حیدری، مولانا عبدالرحمان معاویہ، قاری احسان اللہ، مولانا پروفیسر ظفر اقبال جلالی، مولانا محمد امتیاز حسین کاظمی، علامہ لیاقت علی رضوی، علامہ شیخ محسن علی نجفی اور آغا شفیع نجفی پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ جبکہ علامہ محمد یونس قریشی،حافظ صدیق، علامہ طاہر اشرف، علامہ اورنگزیب فاروقی، مولانا محمد الیاس گھمن، مولانا عبدالخالق رحمانی، مولانا یوسف رضوی المعروف ٹوکہ، مولانا خادم رضوی، پیر عرفان المشہدی، ڈاکٹر اشرف جلالی، علامہ ذاکر مقبول حسن، حافظ تصدق حسین، علامہ محمد اقبال، علامہ غضنفر تونسوی اور علامہ جعفر جتوئی کے اسلام آباد میں داخلے اور تقاریر پر دو ماہ کیلئے پابندی عائد کر دی ہے۔ تاہم انتظامیہ کی جانب سے اس پابندی کے حوالے سے کسی کو بھی تحریر ی طورپر آگاہ نہیں کیا گیا ہے۔٭
٭٭٭٭٭