محمود غزنویؒ کی حکایت ہے کہ جب وہ ہندوستان پر حملہ آور ہوئے تو چند ہندو لڑکوں کو گرفتار کر کے لے گئے۔ ان میں سے ایک
لڑکے میں آثار لیاقت و قابلیت پاکر اس کو ایک بڑا عہدہ دے دیا۔ اس وقت وہ نوجوان رویا۔ محمودؒ نے پوچھا کہ یہ رونے کا وقت ہے؟
لڑکے نے کہا غم سے نہیں روتا، بلکہ مجھ کو میری ماں کی ایک بات یاد آگئی ہے۔ وہ یہ کہ جب آپ بار بار ہندوستان پر حملہ آور ہوتے تھے تو بچوں کو یہ کہہ کر ڈرایا جاتا تھا کہ تجھے محمود کو دے دیں گے۔ ہم یہ سن کر ڈر جاتے، سہم جاتے اور یہ خیال کرتے کہ نامعلوم محمود کیسا ظالم شخص ہو گا۔ مگر کاش آج میرے پاس میری ماں ہوتی تو اس کو دکھاتا کہ دیکھ یہ ہے محمود۔
سلطان محمود غزنویؒ ایک رات سونے کے لیمپ کے ساتھ دلی شہر میں معمول کی گشت پر تھے۔ ایک جگہ آپ نے دیکھا کہ ایک لڑکا جو طالب علم تھا۔ چوک بازار میں لگے ہوئے سرکاری لیمپ کی روشنی میں بیٹھا پڑھ رہا تھا۔ آپ نے اس سے پوچھا کیا تمہارے گھر میں چراغ یا دیا وغیرہ نہیں ہے؟
اس نے کہا میں ایک یتیم ہوں۔ میری ماں محنت مزدوری کرتی ہے۔ لیمپ خریدنے کی ہمت نہیں۔ اس لیے سرکاری لیمپ کی روشنی میں پڑھنے پر مجبور ہوں۔ بادشاہ نے اس کا علمی شوق و ذوق دیکھا اور اپنے ہاتھ میں پکڑا ہوا لیمپ اس یتیم طالب علم کو دے دیا۔ پھر اس نے بادشاہ کو بہت دعائیں دیں۔ اس کی ماں بھی بہت خوش ہوئی۔ پھر یہ یتیم بچہ کل کو ایک جید عالم و فاضل بن کر قابل احترام ہوا۔ (از کتاب: سچے اسلامی واقعات ص 62)
٭٭٭٭٭