روزانہ 60 ہزار افراد کو کھانا کھلاتے

قحط کے زمانے میں حضرت عمرؓ نے شام، فلسطین اور عراق میں اپنے گورنروں کو تاکیدی احکامات بھیجے کہ جلد سے جلد زیادہ سے زیادہ غلہ بھیجیں۔ چنانچہ حضرت ابوعبیدہؓ، حضرت عمروؓ بن العاص، حضرت معاویہؓ اور حضرت سعدؓ بن ابی وقاص نے اپنے اپنے صوبوں سے ہزار ہا اونٹ غلے، آٹے اور دوسری اشیائے خوردنی و پوشیدنی سے لدے ہوئے بھیجے۔ فلسطین سے جہازوں کے ذریعے بھی ہزاروں من آٹا آیا، مدینہ کے ارد گرد جو بدوی قبائل جمع ہو گئے تھے، ان میں اہل مدینہ میں روزانہ کھانا تقسیم کیا جاتا تھا، غلہ آنے پر غلہ تقسیم کیا گیا اور جن ہزاروں اونٹوں پر لدا ہوا غلہ آیا تھا، ان میں سے بیس اونٹ روزانہ ذبح کر کے گوشت پکا کر بانٹا جاتا تھا۔ کپڑے، کمبل وغیرہ بھی تقسیم کئے گئے۔
10,000 افراد ایک وقت میں حضرت عمرؓ کے ساتھ دستر خوان پر کھانا کھاتے تھے۔ آٹا، گوشت، کھجوریں، سالن مریضوں، عورتوں، بچوں میں تقسیم کئے جاتے، جو خلیفہ کے ساتھ دستر خوان پر نہ کھا سکتے، ان کی تعداد 50,000 سے کم نہ تھی۔ حضرت عمرؓ اپنی بیویوں یا لڑکوں کے گھروں میں کھانا کھانے کے بجائے عام لوگوں کے ساتھ صرف رات کو لنگر کا کھانا کھاتے تھے، فرمایا کرتے تھے کہ اگر فرات کے کنارے ایک اونٹ یا بکری کا بچہ بھی بھوکا مر گیا تو عمرؓ سے جواب طلبی ہو گی۔ ایسا معاشی و حکومتی احساس ذمہ داری دنیا کی تاریخ کو اول سے آخر تک پڑھے جانے پر بھی کسی دوسری صاحب اقتدار ہستی کے ہاں نہ ملے گا۔
فرمایا کرتے کہ ہم بیت المال سے مسلمانوں کو کھلاتے رہیں گے اور جب دیکھیں گے کہ بیت المال خالی ہو گیا تو محتاجوں کو حسب حیثیت دولت مندوں کے گھروں میں داخل کر دیں گے۔ اس طرح کسی مسلمان کو بھوکا نہیں رہنے دیں گے۔
حضرت عمرؓ نے قحط کے دوران میں زکوٰۃ کی وصولی موقوف کر دی تھی اور چوری کا ارتکاب کرنے والوں کے ہاتھ کاٹنے کی سزا بھی روک دی تھی، حالانکہ یہ قرآن مجید کی عائد کردہ سزا ہے، حضرت فاروق اعظمؓ کا استدلال یہ تھا کہ زمانۂ قحظ میں جو چوری کرے گا، وہ بھوکوں مرنے سے بچنے کے لیے کرے گا اور جان بچانے کے لیے مردار کھانے کی بھی اجازت ہے۔
جب خشک سالی اور قحط نے طول پکڑا تو آپؓ، صحابہ کرامؓ اور دوسرے اہل مدینہ اور قبائل کو ساتھ لے کر نماز استسقاء کے لیے باہر نکلے اور حق تعالیٰ سے بڑی عاجزی اور خشوع و خضوع سے رو رو کر بارش کی دعا مانگی، ڈاڑھی آنسوئوں سے تر ہو گئی۔ ابھی لوگ اپنے اپنے ٹھکانوں پر واپس نہیں پہنچے تھے کہ بادل امنڈ آئے اور موسلا دھار بارش نے جل تھل کر دیئے۔ انسانوں اور حیوانوں کے لیے زمین سے غلہ اور گھاس وغیرہ پیدا ہونے کی امید بندھی۔ حضرت عمرؓ نے ایک ایک بدوی قبیلے کے پاس جا کر ضرورت کے مطابق کچھ مزید عرصے کے لیے غلہ، کپڑے اور جانوروں کے لیے خشک چارہ وغیرہ دے کر انہیں اپنے اپنے علاقوں کی طرف رخصت کیا۔
یہ تھا سربراہ حکومت کا احساس ذمہ داری! آج بھی قحط پڑتے ہیں، سیلاب اور زلزلے آتے ہیں۔ مگر حکمرانوں میں اسوۂ فاروقیؓ کا ہزارواں حصہ بھی ڈھونڈنے سے نہیں ملتا۔
قحط کی مصیبت کا ایک اچھا نتیجہ یہ نکلا کہ شمالی علاقوں کے ساتھ مستقل آمد و رفت اور کاروباری تعلقات قائم ہو گئے، مدتوں شام، فلسطین اور مصر سے حجاز کی منڈیوں میں غلہ اور دوسرے سامان زیست فراہم کئے جاتے رہے۔ (بحوالہ: عشرہ مبشرۃ)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment