بعض رسائل میں عبید اللہ بن قمر قواریریؒ سے نقل کیا ہے کہ ایک کاتب میرا ہمسایہ تھا، وہ مر گیا۔ میں نے اس کو خواب میں دیکھا اور پوچھا: رب تعالیٰ نے تیرے ساتھ کیا معاملہ کیا؟ اس نے کہا: مجھے بخش دیا۔ میں نے سبب پوچھا۔ کہا میری عادت تھی، جب نام پاک رسول اقدسؐ کا کتاب میں لکھتا تو اس کے ساتھ دورد شریف بھی ضرور لکھتا تھا۔ خدائے تعالیٰ نے مجھ کو ایسا کچھ دیا کہ نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا، نہ کسی دل پر گزرا۔ (گلشن جنت)
شیخ زروقؒ نے لکھا ہے کہ مؤلف دلائل الخیرات کی قبر سے خوشبو مشک وغیرہ کی آتی ہے اور یہ برکت درود شریف کی ہے۔
ایک معتمد دوست نے راقم سے ایک خوشنویس لکھنؤ کی حکایت بیان کی۔ ان کی عادت تھی کہ جب صبح کے وقت کتابت شروع کرتے تو اول ایک بار درود شریف ایک بیاض پر جو اسی غرض سے بنائی تھی لکھ لیتے، اس کے بعد کام شروع کرتے۔ جب ان کے انتقال کا وقت آیا تو غلبہ فکر آخرت سے خوف زدہ ہو کر کہنے لگے کہ دیکھئے وہاں جاکر کیا ہوتا ہے۔ ایک مجذوب آنکلے اور کہنے لگے: بابا کیوں گھبراتا ہے، وہ بیاض سرکارؐ میں پیش ہے اور اس پر صاد بن رہے ہیں۔
مولانا فیض الحسنؒ صاحب سہارنپوری مرحومؒ کے داماد نے مجھ سے بیان کیا کہ جس مکان میں مولوی صاحب کا انتقال ہوا، وہاں ایک مہینے تک خوشبو عطر کی آتی رہی۔ حضرت مولانا محمد قاسم صاحبؒ سے اس کو بیان کیا۔ فرمایا یہ برکت درود شریف کی ہے۔ مولوی صاحب کا معمول تھا کہ شب جمعہ کو بیدار رہ کر درود شریف کا شغل فرماتے۔
ابوزرعہؒ نے ایک شخص کو خواب میں دیکھا کہ آسمان میں فرشتوں کے ساتھ نماز پڑھ رہا ہے۔ اس سے سبب حصول اس درجہ کا پوچھا۔ اس نے کہا میں نے دس لاکھ حدیثیں لکھی ہیں۔ جب نام مبارک آنحضرتؐ کا آتا، میں درود لکھتا تھا۔ اس سبب سے مجھے یہ درجہ ملا۔ (فض) زاد السعید میں یہ قصہ اسی طرح نقل کیا ہے۔ بندہ کے خیال میں کاتب سے غلطی ہوئی۔ صحیح یہ ہے کہ ابو زرعہؒ کو ایک شخص نے خواب میں دیکھا، جیسا کہ آگے آرہا ہے۔ (جاری ہے)