حضرت پیر سید مہر علی شاہ صاحبؒ کو کلام پاک کی تعلیم کے لیے خانقاہ میں درس میں شرکت کرنے کے لیے داخل کر دیا گیا۔ جبکہ اردو اور فارسی کے لیے مدرسہ میں داخل کروا دیا گیا۔ آپ کی عمر عزیز اتنی کم تھی کہ خادم آپ کو اٹھا کر لے جاتا اور یونہی واپس لاتا۔
مدرسہ کے طلبہ نے راولپنڈی جا کر امتحان دیا۔ آپ کو جمعہ چوکیدار اپنے کندھوں پر بٹھا کر لے گیا۔ امتحانی مرکز کا نگران ایک انگریز تھا۔ اس نے سب سے پہلے آپ ہی سے سوال کیا کہ بائد مصدر کیا ہے۔ آپ نے جواب بالکل درست دیا۔ یہ جواب سن کر انگریز نگران کی بھلائی ہو، اس نے سب بچوں کو امتحان سے پہلے ہی کامیاب قرار دلایا۔ وجہ یہ بتائی کہ جب اس قدر کم عمر بچے نے اتنا درست جواب دیا ہے تو پھر باقی بچوں کا علم تو لازمی طور پر بہت زیادہ ہوگا اور اس جماعت کا پڑھانے والا کوئی لائق استاد ہی اس کے علاوہ حضرت پیر صاحبؒ کی قوت حافظہ اس قدر تیز تھی کہ آپ کلام پاک کا روزانہ کا سبق زبانی حفظ کرکے سنا دیا کرتے تھے۔ اسی وجہ سے کلام پاک پورا پڑھ لیا تو معلوم ہوا کہ پورے کا پورا کلام پاک تو آپ کو حفظ ہو چکا ہے۔ یہی وہ خداداد صلاحیت تھی کہ اس نو عمر نے آگے چل کر اہل اسلام کی طرف سے قادیانیوں اور عیسائیوں سے مقابلہ کیا اور ان کو ہزیمت سے دو چار کیا۔
آپؒ کے پیر صاحب نے آپ کے لیے ایک ماہر استاد محترم جناب غلام محی الدین کو مقرر فرما رکھا تھا۔ جن کا تعلق پکھلی (ہزارہ) سے تھا۔ یہ بہت قابل شخص تھے۔ ان کا کام حضرت صاحب کو عربی، فارسی اور صرف و نحو کی تعلیم سے بہرہ ور کرنا تھا۔ غلام محی الدین نے آپ کو کافیہ (کتاب) تک تعلیم دی۔ اپنے اس دور اور غلام محی الدین صاحب کا ذکر فرماتے ہوئے ایک جگہ حضرت صاحب فرماتے ہیں کہ’’ایک روز استاد صاحب نے پوچھا کہ مطالعہ کرکے آتے ہو یا نہیں؟ مجھے اس وقت تک لفظ مطالعہ کا صحیح مطلب معلوم نہیں تھا۔ میں سمجھا کہ مطالعہ زبانی یاد کرنے کو کہتے ہیں۔ اس لیے اگلے روز تمام سبق زبانی یاد کرکے سنایا تو استاد صاحب کی حیرانی کی انتہا نہ رہی۔‘‘
ایک مرتبہ ایسا ہی ایک اور واقعہ پیش آیا۔ آپ کے استاد محترم جناب غلام محی الدین صاحب نے زیر سبق کتاب ’’قطر الندا‘‘ کے ایک حصے کی عبارت کو یاد کرنے کو ہدایت کی، جس کو صحیح طرح پڑھا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ ان صفحات کو دیکھ کر حضرت صاحب نے عذر کیا کہ جو عبارت کتاب میں موجود ہی نہیں، اس کو کس طرح یاد کیا جا سکتا ہے۔ استاد صاحب نے حضرت صاحب کی کرامات سن رکھی تھیں اور کچھ نمونے خود بھی ملاحظہ کر چکے تھے۔ مگر تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر اور تصدیق کی خاطر کہا کہ میں کچھ نہیں جانتا، اگر کل تک یہ عبارت یاد نہ ہوئی تو سزا ضرور ملے گی۔
حضرت صاحب فرماتے ہیں کہ ’’میں آبادی سے دور ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر مطالعہ وغیرہ کیا کرتا تھا۔ میں نے وہاں بیٹھ کر کتاب کے بوسیدہ اوراق کی عبارت کو سمجھنے کی بہت کوشش کی۔ مگر کچھ پتہ نہ چلا۔ آخر سر اٹھا کر کہا ’’خدایا تجھے تو معلوم ہے کہ یہ عبارت کیا ہے۔ اگر تو مجھے بتا دے تو میں استاد کی سزا سے بچ جاؤں گا۔‘‘ یہ کہنا تھا کہ اچانک درخت کے پتوں میں ایک سبزی مائل عبارت نمودار ہوئی، جسے میں نے حفظ کر لیا۔ جب میں نے حفظ کر لیا تو وہ غائب ہوگئی۔ میں نے اسی وقت جا کر وہی عبارت استاد صاحب کو سنا دی۔
جب استاد صاحب نے کچھ شک و شبہ کا اظہار کیا تو میں نے کچھ بھی افشا کیے بغیر کہا کہ مجھے اس کے صحیح ہونے کا اس قدر یقین ہے کہ اگر اس کتاب کا مصنف بھی قبر سے نکل کر آجائے اور کہے کہ یہ غلط ہے تو میں نہ مانوں گا۔ چنانچہ استاد صاحب اس کی صحت کی تصدیق کے لیے اس روز راولپنڈی گئے اور ایک مکمل نسخے سے میری بتلائی ہوئی عبارت کو صحیح پایا۔ انہوں نے واپس آکر بصد حیرانی اس کی صحت کا اعتراف کیا۔‘‘
ان واقعات کے بعد آپ کے استاد محترم نے حضرت پیر فضل دین صاحبؒ کی خدمت میں عرض کی کہ صاحبزادے کو حق تعالیٰ نے ایسا عمدہ ذہن عطا فرمایا ہے کہ ہر عبارت پڑھ کر حفظ کر لیتا ہے اور بعض اوقات بڑے مشکل سوالات کرتا ہے۔ جن کا جواب دینے سے میں قاصر ہوں اور مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ میں اب اس کی تعلیم کا صحیح طریقہ سے حق ادا نہیں کر سکتا۔ آپ ان کو کسی بڑے فاضل استاد کے پاس بھیج دیں۔ خیر بزرگوں کا خیال یہ تھا کہ آپ کو صاحبزادگی کے ماحول سے دور رہ کر تعلیم حاصل کرنا چاہیے۔ دوسری طرف آپ کا میلان بھی گھر سے دور رہ کر ایک عام طالب علم کی طرح تعلیم حاصل کرنے میں تھا۔ ان کی خواہش پوری ہوئی اور آپ گولڑہ شریف میں نحو پڑھ کر اسی کم عمری میں جناب مولانا محمد شفیع قریشی کے درس میں داخل کر دئیے گئے، جن کا مسکن موضع بھوئی تھا۔
موضع بھوئی پہنچ کر جو کیفیات آپ پر وارد ہوئیں، ان کو کچھ اس انداز میں فرماتے ہیں کہ ’’ اس نواح میں تین مشہور درس جاری تھے۔ جب میں ان میں سے کسی ایک کو پسند کرنے کے خیال سے ادھر جا رہا تھا تو راستہ میں ایک ٹیلہ کے پاس تینوں طرف راستے پھوٹتے تھے۔ میں نے اس ٹیلے پر چڑھ کر دیکھا تو ہر سہ جانب خواتین نے کپڑے دھو کر دھوپ میں ڈال رکھے تھے۔
دو جانب کے کپڑے مختلف رنگوں کے تھے، مگر بھوئی کی سمت والے تمام کپڑوں کا رنگ سفید تھا، اس بات سے مجھے اندازہ ہوا کہ ادھر اجلا پن اور نورانیت زیادہ ہے۔‘‘(جاری ہے)