پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز کی تحقیقات کے مطابق ملک میں جعلی کمپنیوںکے منرل واٹر کی وجہ سے ہر سال دس لاکھ سے زائد افراد یرقان کا شکار ہوجاتے ہیں۔ صرف یہی نہیں، بلکہ دنیا بھر میں بھی پلاسٹک بوتل میں پیک منرل واٹر کو انسانی صحت کیلئے مضر قرار دیا جارہا ہے۔ اسی سال اگست میں برطانوی اخبار گارجین میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق سوڈا واٹر اور کولا ڈرنکس تو دانتوں کو نقصان پہنچاتے ہی ہیں، لیکن پلاسٹک کی بوتلوں میں بند منرل واٹر بھی انسانی دانتوں کیلئے مضر ہے۔ امریکہ میں اسی وجہ سے دانتوں کے جھڑنے کی شکایات زیادہ بڑھی ہیں۔ امریکی محکمہ فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کی رپورٹ کے مطابق اوسطاً ہر امریکی سالانہ 30 گیلن منرل واٹر استعمال کرتا ہے اور منرل واٹر کی بوتل میں یہ ضمانت نہیں ہوتی کہ اس کی سیل ٹوٹنے کے بعد یا پہلے ہی اس کے اندر کوئی بکٹیریا داخل نہ ہوگیا ہو۔ پانی کی اکثر بوتلوں میں فلورائیڈ نہیں ہوتا جو دانتوں کی صحت کیلئے ضروری ہے جبکہ عام پانی میں جو نل یا زمین سے نکالا جاتا ہے اس میں فلورائیڈ شامل ہوتا ہے۔ بوتل میں ڈالے جانے والے پانی میں اس کو دیر تک محفوظ بنانے کیلئے اس کا پی ایچ لیول بڑھایا جاتا ہے۔ حالیہ تحقیق کے مطابق ماہرین نے بتایا ہے کہ انہوں نے مشہور و معروف برانڈ کے پانی کی بوتلوں پر تحقیق کی ہے۔ بعض برانڈز میں تو نقصان پہنچانے والا پی ایچ لیول بہت زیادہ تھا اور فلورائیڈ کی ناکافی تعداد پائی گئی۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ایسا پانی جس میں زیادہ ایسڈ ہو، وہ پینا دانتوں کیلئے خطرناک ہے۔ اگر پی ایچ لیول زیادہ ہو تو ہمارے دانتوں کی اوپری سطح جھڑنے لگتی ہے۔ اس لئے احتیاط کی ضرورت ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان پانی کی کمی کے اعتبار سے دنیا میں تیسرے نمبر پر آگیا ہے۔ عالمی بینک نے اپنی ایک رپورٹ میں یہ پیش گوئی کی ہے کہ 2025ء میں دنیا کی دو تہائی آبادی پینے کے تازہ پانی کی کمی کا شکار ہوجائے گی۔ جبکہ پانی فروخت کرنے والی کمپنیاں منہ مانگے داموں پانی فروخت کریں گی اور پانی پٹرول سے بھی مہنگا ہوجائے گا۔ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں دو تہائی سے زائد گھرانے آلودہ پانی پینے پر مجبور ہیں اور ہر سال 50 ہزار سے زائد بچے آلودہ پانی پینے کے باعث موذی امراض میں مبتلا ہو کر موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ جبکہ ملک میں 30 سے 40 فیصد اموات بھی آلودہ پانی پینے کے سبب ہوتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں زیر زمین پانی میں سنکھیا (Arsenic) نامی زہر کی موجودگی بھی ثابت ہوئی ہے۔ پاکستان کے پانی میں یہ زہر کس نے ملایا ہے ؟ اس سلسلے میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے نوٹس لے رکھا ہے، جس میں متعدد منرل واٹر کمپنیوں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے ان کی پروکٹس کی فروخت روکنے کے احکامات بھی جاری کئے ہیں۔ پاکستان کے مختلف سائنس دان اور پانی پر تحقیق کا قومی ادارہ پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز، مختلف ملٹی نیشنل اور مقامی کمپنیوں کے بوتل بند پانی کو مضر صحت قرار دے چکے ہیں۔ پی سی ایس آئی آر نے اپنی ایک رپورٹ میں 2006ء میں اسلام آباد، کراچی ، لاہور اور کوئٹہ کے پانی کومضر صحت قرار دیا تھا۔ پی سی ایس آئی آر کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ وفاقی دارالحکومت سمیت کراچی، پشاور، لاہور اور کوئٹہ میں پینے کیلئے استعمال ہونے والا 75 فیصد پانی مضر صحت ہے۔ اس وقت پی سی ایس آئی آر لیبارٹریز کے چیئرمین ڈاکٹر جاوید ارشد مرزا نے کہا کہ بڑھتی ہوئی پیٹ کی بیماریوں کی وجہ یہی مضر صحت پانی ہے اور یہ بھی کہا کہ مختلف کمپنیوں کے منرل واٹر اور اسلام آباد میں فلٹر کا پانی بھی پینے کے لائق نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت فلٹر پلانٹ تو لگا رہی ہے لیکن ان فلٹرز کی مناسب دیکھ بھال نہ ہونے سے فلٹر شدہ پانی میں بھی وہی جراثیم پیدا ہو رہے ہیں جو فلٹر کے بغیر پانی میں موجود ہیں۔ انہوں نے تجویز دی کہ حکومت پانی کے پائپوں کو سیوریج پائپ سے دور کرے اور مضر صحت پانی فراہم کرنے والی نجی کمپنیوں کو سیل کرنے کا قانون بنائے۔ انہوں نے خبردار کیا تھا کہ پینے کے پانی کو صاف کرنے کیلئے اقدامات نہ اٹھائے گئے تو مزید مسائل پیدا ہوں گے۔ ان کی رپورٹ درست تھی، لیکن ان کی رپورٹ میں منرل واٹر پر زیادہ زور نہیں دیا گیا تھا۔ دراصل ملٹی نیشنل کمپنیاں پینے کے صاف پانی تک عام آدمی کو رسائی نہیں دینا چاہتیں۔ کیونکہ دنیا کی آبادی اس وقت 6 ارب سے زیادہ ہے اور پانی بیچنے والی ملٹی نیشنل کمپنیاں انہیں اپنا خریدار بنانا چاہتی ہیں، اس کی خاطر وہ زیر زمین اور نل کے پانی کو مضر صحت قرار دلاتی ہیں۔ آج وہ پانی بیچ کر اربوں ڈالر کما رہی ہیں اور وہ پانی صحت بخش بھی ہے؟ اس کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔ آج بھی صاف و شفاف پانی ملک کے صرف 16فیصد شہریوں کو دستیاب ہے۔ آئی ایم ایف کی رپورٹ کے مطابق پاکستان پانی کی قلت و آلودگی میں دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے۔ اس سال فروری میں پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز نے اپنی سہ ماہی رپورٹ میں بتایا تھا کہ ملک بھر میں فراہم کئے جانے والے مختلف برانڈز کے بوتل بند پانی کیمیائی اور جراثیمی طور پر آلودہ پائے گئے ہیں ۔ پانی میں سنکھیا کی مقدار بھی پائے جانے کا انکشاف ہوا ہے جس سے پھیپھڑوں، مثانے، گردے، ناک اور جگر کا کینسر اور کئی بیماریوں پھیلنے کا خدشہ ہے۔ رپورٹ میں اسلام آباد، راولپنڈی، سیالکوٹ، پشاور، ملتان، لاہور، کوئٹہ، بہاولپور، ٹنڈو جام، کراچی اور مظفر آباد سے بوتل بند / منرل واٹر کے104برانڈز کے نمونے کیمیائی اور جراثمی طور پر آلودہ پائے گئے۔ ان میں 4 نمونوں میں سنکھیا کی مقدار اسٹینڈرڈ سے زیادہ (14 پی پی بی سے لے کر 27 پی پی بی) تک تھی جبکہ پینے کے پانی میں اس کی حد مقدار صرف 10پی پی بی تک ہے۔ پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسزکی اپریل تا جون2018ء کی سہ ماہی رپورٹ میں اسلام آباد، راولپنڈی، پشاور، لاہور، بہاولپور، ٹنڈوجام، کوئٹہ اور کراچی سے بوتل بند/ منرل واٹر کے 85 برانڈز کے نمونے حاصل کیے گئے۔ ان نمونوں کا پاکستان اسٹینڈرڈ اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی (PSQCA) کے تجویز کردہ معیار کے مطابق تجزیہ کیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان نے منرل واٹر کمپنیوں کی طرف سے زیر زمین پانی کے استعمال کے معاملے پر از خود نوٹس لے رکھا ہے۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ زمین سے پانی کھینچا جارہا ہے اور بیچا جا رہا ہے، پانی بیچنے والی کمپنیاں کوئی قیمت بھی ادا کرہی ہیں یا نہیں؟چیف جسٹس پاکستان نے بوتلوں میں پانی بیچنے والی کمپنیوں کی طرف سے زیر زمین پانی کے استعمال کے معاملے پر از خود نوٹس لیا۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے اٹارنی جنرل اور صوبائی ایڈووکیٹ جنرلز کو ہدایات کرتے ہوئے کہا کہ بتائیں پانی بیچنے والی کمپنیاں کتنا پانی استعمال کر رہی ہیں؟ ان کی تشویش سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ منرل واٹر بیچنے والی کمپنیاں مفت میں زیر زمین پانی استعمال کرتی ہیںاور اس کی کوئی قیمت بھی نہیں ادا کرتیں، جبکہ عوام سے کئی گنا رقم وصول کرتی ہیں۔ جبکہ پانی کے اس تجارتی استعمال سے اسلام آباد سمیت کئی علاقوں میں زیر زمین پانی کی سطح میں کمی آئی ہے۔ ٭